کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 582
شیخ البانی رحمہ اللہ،مفتی اعظم سعودی عرب علامہ ابن باز رحمہ اللہ،حافظ ثناء اللہ خان مفتی الاعتصام اور حافظ صلاح الدین یوسف(سابق مدیر الاعتصام)جیسے کبار علما نے بھی لکھا ہے کہ پہلے قعدے میں درود شریف پڑھنا چاہیے۔اسی طرح پاک و ہند،سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے کثرت سے اہل علم اس کے قائل ہیں۔غرض کہ پہلے قعدے میں درود شریف پڑھنا جائز و مستحب اور دوسرے میں واجب ہے۔[1] علامہ ابن حزم تو دونوں میں وجوب کے قائل ہیں،[2] جبکہ احناف پہلے میں درود شریف پڑھنے والے پر سجدۂ سہو کے قائل ہیں۔لیکن یہ دونوں ہی افراط و تفریط پر مبنی رائیں ہیں۔مسلک اعتدال پہلے میں جواز و استحباب اور دوسرے میں وجوب والا ہے۔[3] درود شریف کے صیغے: درود شریف کے متعدد صیغے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہیں،جنھیں ہم آگے چل کر درود شریف کے غیر مختلف فیہ مقام ’’قعدئہ ثانیہ‘‘ میں ذکر کریں گے۔ان شاء اللہ! قعدئہ اُولیٰ بھول جانا: یہاں تک تو قعدئہ اولیٰ سے متعلق مسائل و احکام تھے،جو قدرے تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔اب رہی یہ بات کہ جو شخص نماز فجر یا کوئی بھی دو رکعتوں والی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کا تو یہی قعدۂ اخیرہ بھی ہے،لہٰذا وہ درود شریف اور دعا کرنے کے بعد سلام پھیر دے۔لیکن جو شخص مغرب کی تین رکعتیں یا کسی نماز کی چار رکعتیں پڑھ رہا ہو اور اسے قعدئہ اولیٰ یا تشہد اوّل بھول جائے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے لگے،تو اب اس کے سامنے دو ہی صورتیں ہوں گی۔پہلی یہ کہ پورے طور پر اٹھ کھڑے ہونے سے پہلے ہی اسے یاد آجائے کہ میں نے تشہد اوّل کے لیے قعدہ کرنا یا بیٹھنا تھا تو وہ وہیں سے واپس بیٹھ جائے۔اس سے اس پر سجدئہ سہو واجب نہیں ہوگا۔پوری طرح کھڑا نہ ہونے سے کیا مرادہے؟اس کو یوں سمجھ لیں کہ اس نے قعدئہ اولیٰ کیے بغیر بھول سے
[1] ملخصاً از مقالہ سید راشدی بحوالہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور(جلد 41،شمارہ 47،بابت 8 جمادی الاولیٰ 1410ھ بمطابق 8 دسمبر 1989ء)و مضمون حافظ عبدالستار الحماد،ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ لاہور(جلد 20،شمارہ 42،1989ء) [2] سنن أبي داود مع معالم السنن و تہذیب السنن لابن القیم(1/ 1/ 202)و مع العون(3/ 286)الفتح الرباني(4/ 17)سنن الترمذي مع التحفۃ(2/ 361)مصنف ابن أبي شیبۃ(1/ 239)التلخیص الحبیر لابن حجر(1/ 1/ 263) [3] حوالہ جات سابقہ و فتح الباری(2/ 314)و ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ مذکورہ سابقہ والاعتصام(جلد 45،شمارہ1،1413ھء بہ مطابق 1992ء)