کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 566
اخفاے تشہد:
نمازی اکیلا ہو یا امام و مقتدی،ہر شکل میں،اور نماز بلند آواز سے قراء ت والی جہری ہو یا آہستگی سے قراء ت والی سرّی،تمام صورتوں میں تشہد اول و اخیر کو سری اندازسے پڑھنا ہی سنت ہے،اسے بلند آواز سے پڑھنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ سنن ابو داود و ترمذی،مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے:
((مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ تُخْفٰی التَّشَہُّدُ))[1] ’’سنت یہ ہے کہ تشہد بلا آواز پڑھا جائے۔‘‘
اسی طرح صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک تفسیری روایت ہے،جس میں وہ فرماتی ہیں:
نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ فِی التَّشَہُّدِ:﴿وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا۔۔۔﴾[بني إسرائیل:110][2]
’’یہ آیت ’’نہ تو تُو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ‘‘ تشہد کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔‘‘
تشہد کے مختلف صیغے:
تشہد کے مختلف صیغے کتبِ حدیث میں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں ہی سے موسوم ہیں،مثلاً تشہدِ ابن مسعود،تشہدِ ابن عباس،تشہدِ ابن عمر،تشہدِ ابو موسیٰ اشعری،تشہدِ عمر بن خطاب اور تشہد عائشہ رضی اللہ عنہم۔
1 تشہدِ ابن مسعود رضی اللہ:
تشہد کا پہلا اور معروف صیغہ تشہدِ ابن مسعود کہلاتا ہے،جو صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،مصنف ابن ابی شیبہ،مسند سراج و ابو یعلی اور مسند احمد میں ان سے مروی ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
((عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم التَّشَہُّدَ وَکَفِّيْ بَیْنَ کَفَّیْہِ کَمَا یُعَلِّمُنِیَ السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ))
[1] مسند أحمد(1/ 437)الفتح الرباني(3/ 5)و ابن حبان(5/ 281 و صححہ أحمد البناء والأرناؤوط،والألباني في الصلاۃ(ص: 95)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 356)
[2] المحلیٰ(3/ 271)
[3] المحلیٰ(3/ 371)صفۃ الصلاۃ(ص: 95)