کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 548
مالکیہ کے نزدیک قعدۂ اُولیٰ و ثانیہ ہی میں تورّک ہے اور حنفیہ میں یہ بالکل ہی نہیں۔ہم تورّک کی مشروعیت،اس کا طریقہ اور اس کی حکمت وغیرہ سے متعلقہ امور قعدۂ ثانیہ یا تشہد اخیر کے ضمن میں چل کر قدرے تفصیل سے بیان کریں گے۔ان شاء اللہ ممنوع اِقعاء: یہاں یہ بات بھی ذکر کر دیں کہ قعدے میں،وہ اولیٰ ہو یا اخیرہ،اس میں اقعاء ممنوع ہے۔جیسا کہ ترمذی میں اشارتاً اور مسند احمد و طیالیسی،ابو یعلی و بیہقی،معجم طبرانی اوسط اور مصنف ابن ابی شیبہ میں تفصیلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے: ((نَہَانِیْ خَلِیْلِیْ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ ثَلاَثٍ:عَنْ نُقْرَۃٍ کَنُقْرَۃِ الدِّیْکِ،وَاِقْعَائٍ کَاِقْعَائِ الْکَلْبِ،وَالْتِفَاتٍ کَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ))[1] ’’میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین کاموں سے منع فرمایا۔کو ّے کی طرح ٹھونگے مارنا،کتے کی طرح بیٹھنا اور لومڑی کی طرح جھانکنا۔‘‘ جلسہ بین السجدتین کے ضمن میں ذکر گزرا ہے کہ اقعاء دو طرح کا ہے،ایک جائز و مشروع ہے،جو دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے والے وقت کے لیے خاص ہے کہ دونوں پاؤں کو جوڑ کر پنجوں کے بل کھڑے کیا اور ان کے اوپر بیٹھ گئے۔جبکہ ایک دوسرا اقعاء ممنوع ہے،جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں منع فرمایا ہے اور اسے کتیّ کی طرح بیٹھنے سے تشبیہ دی ہے۔اس ممنوع اقعاء سے مراد ابو عبیدہ اور دوسرے اہل علم کے نزدیک یہ ہے: ’’ہُوَ اَنْ یُلْزِقَ الرَّجُلُ اِلْیَتَیْۃِ بِالْاَرْضِ وَیَنْصِبَ سَاقَیْہِ،وَیَضَعَ یَدَیْہِ بِالْاَرْضِ کَمَا یُقْعِيْ یُعْقِی الْکَلْبُ‘‘[2] ’’(ممنوع)اقعاء یہ ہے کہ آدمی اپنے سرین(چوتڑ)زمین سے لگا لے اور دونوں پنڈلیوں کو کھڑا کر لے اور دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگا لے جس طرح کتّا کرتا ہے۔‘‘ یہ وہ اندازِ اقعاء ہے جس سے منع کیا گیا ہے اور یہی انداز کتے کے بیٹھنے سے مشابہ ہے۔
[1] نیل الأوطار(2/ 3/ 32 في باب التعوذ بالقراء ۃ)و(2/ 3/ 119 باب افتتاح الثانیۃ بالقراء ۃ من غیر تعوذ ولا سکتۃ) [2] دیکھیں : المجموع(3/ 326)و حاشیہ زاد المعاد(1/ 242)و نیل الأوطار(2/ 3/ 32) [3] نیل الأوطار(2/ 3/ 32) [4] نیل الأوطار(2/ 3/ 32)