کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 543
مواضع الصّلاۃ،باب ما یقال بین تکبیرۃ الإحرام والقراء ۃ‘‘ اسی طرح سنن ابوداود،نسائی،ابنِ ماجہ،ابنِ حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے:
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا نَہَضَ مِنَ الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ اسْتَفْتَحَ بِالْقِرَائَ ۃِ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَلَمْ یَسْکُتْ))[1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لیے اٹھتے تو سورت فاتحہ کی قراء ت شروع فرما دیتے تھے اور خاموش کھڑے نہیں رہتے تھے‘‘۔
امام مجد الدین ابنِ تیمیہ کا نظریہ:
علامہ مجد الدین ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’المُنتقیٰ‘‘ میں ’’باب افتتاح الثانیۃ بالقراء ۃ من غیر تعوّذ ولا سکتۃ‘‘ قائم کر کے اپنا نظریہ بھی بتا دیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی تعوذ صرف پہلی رکعت کے شروع میں ہے،اس کے بعد سلام پھیرنے تک کسی میں نہیں۔پھر آگے انھوں نے سابق میں ذکر کی گئی حدیث نقل کی ہے۔
امام شوکانی کی نظر میں:
اس سلسلے میں امام شوکانی نے نیل الاوطار میں علامہ ابن قیم کی طرح ہی لکھا ہے اور صرف پہلی رکعت میں تعوذ کو اختیار کیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ تعوذ کے بارے میں جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں،ان سب میں صرف پہلی رکعت کی قراء ت کے شروع ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعوذ پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔لہٰذا زیادہ قرین احتیاط یہی ہے کہ سنت میں وارد چیزوں پر عمل کرتے ہوئے صرف پہلی رکعت کے شروع ہی میں تعوذ پڑھنے پر اکتفا کیا جائے۔خصوصاً جبکہ نماز میں کلام کی ممانعت کا پتا دینے والی احادیث تعوذ وغیر تعوذ ہر چیز کی ممانعت کا پتا دیتی ہیں،سوائے ان امور کے جن کی تخصیص پر دلیل یا جن کی اجازت موجود ہے۔اس تعوذ کی صرف پہلی رکعت میں مشروعیت ملتی ہے،بعد والی رکعات
[1] للتفصیل: التلخیص(1/ 1/ 260)