کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 523
((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ))[1] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔‘‘ 7۔ علل دارقطنی میں وارد ایک حدیث سے بھی سجود والی رفع یدین پر استدلال کیا جاتا ہے،جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کے بارے میں مروی ہے: ((اِنَّہُ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَیَقُوْلُ:اِنِّیْ اَشْبَہُکُمْ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم))[2] ’’وہ ہر نشست و برخاست(اٹھنے جھکنے)پر رفع یدین کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں نماز پڑھنے میں تم سب سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں۔‘‘ 8۔ محلی ابنِ حزم میں مروی ہے: ’’عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابنِ عُمَرَ اَنَّہٗ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا سَجَدَ وَ بَیْنَ الرَّکْعَتَیْنِ‘‘[3] ’’نافع رحمہ اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ سجدہ کرتے وقت اور دو رکعتوں کے درمیان رفع یدین کیا کرتے تھے۔ 9۔ جزء رفع الیدین امام بخاری میں سالم بن عبداللہ کہتے ہیں: ’’اِنَّ اَبَاہُ کَانَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ السُّجُوْدِ وَاِذَا اَرَادَ اَنْ یَقُوْمَ رَفَعَ یَدَیْہِ‘‘[4] ’’ان کے والد(ابن عمر رضی اللہ عنہما)سجود سے سر اٹھاتے وقت اور قیام کے لیے اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔‘‘ مانعین کے دلائل: دیگر ائمہ و فقہا اور جمہور اہل علم کے نزدیک سجود میں مطلقاً رفع یدین مشروع نہیں ہے۔ 1۔ وہ فریق اوّل کے دلائل پر مبنی احادیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سند کے صحیح ہونے سے کسی حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا،خصوصاً جبکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ والی حدیث
[1] المنتقیٰ مع النیل(2/ 3/ 110)سنن الترمذي(2/ 162)سنن أبي داود(3/ 870)مصنف عبدالرزاق(2/ 187 عن علی رضی اللہ عنہ ) [2] المنتقیٰ(2/ 3/ 109)و ابن خزیمۃ(1/ 340،341)صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین،رقم الحدیث(203) [3] ك بحوالہ صفۃ الصلاۃ(ص: 91) [4] سنن الترمذي(2/ 162) [5] صفۃ الصلاۃ(ص: 91)