کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 483
اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث کسی حد تک قابل استدلال ہے۔علامہ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے اور شیخ شعیب نے اسے قوی قرار دیا ہے۔جب سنت ِالٰہی{لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾اور اسی موضوع کی احادیث کو بھی ساتھ ملایا جائے تو بوڑھے،بیمار،کمزور اور ضرورت مند کے لیے قدرے گنجایش نکل آتی ہے،ورنہ محض اس حدیث میں دوسری صحیح و قوی احادیث کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں،جن میں بازوؤں اور کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر اور بازوؤں کو پہلوؤں سے اور کہنیوں کو گھٹنوں سے الگ رکھنے کا حکم آیا ہے۔یہاں تک پیشانی،ناک،کہنیوں،بازوؤں،ہاتھوں اور ہاتھوں کی انگلیوں کے بارے میں تفصیل تھی کہ بہ وقتِ سجدہ ان سب کو کیسے ہونا چاہیے۔ پیٹ کو رانوں سے اٹھا کر اور رانوں کو الگ الگ رکھنا: حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جب نمازی سجدہ کرے تو وہ اپنا پیٹ اپنی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔چنانچہ امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان یوں ذکر فرمایا ہے: ’’باب ترک التمدد في السجود واستحباب رفع البطن عن الفخذین‘‘[1] ’’سجدوں میں لمبے ہونے کے ترک کرنے اور پیٹ کو رانوں پر نہ ڈالنے کے مستحب ہونے کا بیان۔‘‘ پھر اس باب کے تحت انھوں نے وہ حدیث روایت کی ہے،جو سنن نسائی کے ’’باب صفۃ السجود‘‘ میں بھی منقول ہے،جس میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ إِذَا صَلّٰی جَحّٰی))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو بازوؤں کو پہلوؤں اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھتے تھے۔‘‘ ’’جَحّٰی‘‘ کا معنی ہے نماز میں بازوؤں کو پہلوؤں سے اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھنا۔[3] اس کی تائید حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
[1] صحیح ابن خزیمۃ(1/ 325)مجمع الزوائد(1/ 2/ 126)فتح الباري(2/ 294 و صححہ)الإحسان في ترتیب ابن حبان(5/ 242)وانظر نصب الرایۃ(1/ 380۔386)صفۃ الصلاۃ(ص: 84 وصححہ)في الإرواء(2/ 242) [2] الإحسان بتقریب ابن حبان(5/ 243)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 323)و سنن البیہقي(2/ 107)مصنف ابن أبي شیبۃ موقوفًا(1/ 261 کما في الإحسان)مسند أحمد(4/ 295)وقال الأعظمی في تحقیق ابن خزیمۃ وقال الھیثمي في المجمع(1/ 2/ 128): رجالہ رجال الصحیح۔ولم یتعقب علیہ الألباني ولا الأرناؤوط۔ [3] صحیح مسلم(2/ 4/ 213)فتح الباري(2/ 294) [4] صحیح سنن أبي داود(1/ 163)و تحفۃ الأحوذي(2/ 151)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 331)