کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 471
شرح السنہ(3/ 141)میں امام بغوی نے ناک اور پیشانی دونوں کے وجوب کا قول نقل کیا ہے،جبکہ اس کے حاشیے میں شیخ شعیب الارناووط نے لکھا ہے کہ امام اوزاعی،احمد،اسحاق،ابو یوسف اور محمد کا مذہب یہ ہے کہ ناک اور پیشانی دونوں کا بیک وقت زمین پر لگانا واجب ہے اور صحیح یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کی طرف رجوع کر لیا تھا،جیسا کہ شیخ برہان الدین نے ’’الشرنبلالیۃ‘‘ میں نقل کیا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے،جیسا کہ المجمع اور اس کی شروحات،الوقایہ اور اس کی شروحات اور الجوہرہ،صدر الشریعہ العینی البحر اور النہر وغیرہ میں ہے علامہ قاسم نے اپنی ’’التصحیح‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ امام ابو یوسف و محمد کے قول کی طرح ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ایک قول ہے اور اسی پر فتویٰ ہے،کیونکہ سنن دارقطنی،مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّا یُصِیْبُ اَنْفَہٗ مِنَ الْاَرْضِ مَا یُصِیْبُ الْجَبِیْنَ))[1]
’’اس کی نماز نہیں ہوتی جس کی ناک بھی پیشانی کی طرح زمین پر نہ لگے۔‘‘
راجح مسلک:
ابن دقیق العید اور دیگر ائمہ و فقہا نے کہا ہے کہ ناک کی طرف اشارہ پیشانی کی تصریح کے معارض و منافی نہیں ہو سکتا،لہٰذا صرف ناک پر سجدہ ہر گز درست نہیں ہے اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس بات پر تمام صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے۔[2]
امام خطابی نے لکھا ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں پر سجدہ واجب ہے،خصوصاً جبکہ گیلی جگہ پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبینِ مبارک اور ناک زمین پر لگائی تھی۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم ناک کو کیچڑ سے بچا لیتے۔البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کی اس بات کو محل نظر قرار دیا ہے۔[3]
علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی نے عون المعبود(3/ 164)میں پیشانی اور ناک دونوں پر سجدہ کرنے والے مسلک ہی کو اقرب الی الصواب قرار دیا ہے اور علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی(2/ 144)میں بیک وقت پیشانی اور ناک دونوں پر سجدے کے وجوب کو راجح کہا ہے۔
[1] نصب الرایۃ(1/ 384)التلخیص(1/ 1/ 252)عون المعبود(3/ 164)
[2] نصب الرایۃ(1/ 384)
[3] حوالہ جاتِ سابقہ