کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 460
نہیں۔چنانچہ لغت کی بیس ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب ’’لسان العرب‘‘میں ابن المنظور افریقی نے مادہ ’’رکب‘‘ میں لکھا ہے: ’’ورکبۃ البعیر في یدہ۔۔۔وکل ذي أربع رکبتاہ في یدیہ‘‘[1] ’’اونٹ کا گھٹنا اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتا ہے۔۔۔بلکہ ہر چوپائے کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔‘‘ اہل لغت میں سے صاحب لسان العرب کی اس صراحت کے بعد یہ کہنا تو صحیح نہیں رہاکہ اہل لغت کے یہاں یہ بات متعارف نہیں ہے۔ مشکل الآثار و شرح معانی الآثار: مشکل الآثار اور شرح المعانی میں امام طحاوی نے اس حدیث کی تصحیح و تثبیت کے دوران میں اونٹ بلکہ تمام جانوروں کی اگلی ٹانگوں میں ان کے گھٹنے ہونے میں کوئی استحالہ نہ ہونے کا پتا دیتے ہوئے اور انسان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’لَا یَبْرُکُ عَلـٰی رُکْبَتَیْہِ اللَّتِیْنَ فِیْ رِجْلَیہِ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ عَلـٰی رُکْبَتَیْہِ اللَّتِیْنَ فِیْ یَدَیْہِ وَلـٰکِن یَبْدَأُ فَیَضَعُ أَوَّلاً یَدَیْہِ اللَّتِیْنَ لَیْسَ فِیْہِمَا رُکْبَتَانِ ثُمَّ یَضَعُ رُکْبَتَیْہ،فَیَکُونُ مَا یَفْعَلُ فِیْ ذٰلِکَ بِخِلَاف مَا یَفْعَلُ الْبَعِیرُ ‘‘[2] ’’وہ گھٹنوں کے بل نہ بیٹھے،جو اس کی ٹانگوں میں ہوتے ہیں،جس طرح اونٹ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے،جو اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں،بلکہ پہلے ہاتھ رکھے،جن میں اس کے گھٹنے نہیں ہوتے،پھر گھٹنے رکھے۔اس طرح وہ بیٹھنے میں اونٹ کے برعکس طریقے سے بیٹھے گا۔‘‘ نیز علماء احناف ہی میں سے علامہ علی قاری نے المرقاۃ شرح مشکات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ((إِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ))میں اس بات سے روکا گیا ہے کہ کوئی شخص اونٹ کی طرح پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھے۔اس حدیث میں اونٹ سے تشبیہ دی گئی ہے،جبکہ وہ اپنے ہاتھ ہی گھٹنوں سے پہلے رکھتا ہے،کیونکہ انسان
[1] الطحاوي(1/ 151)بحوالہ الضعیفۃ(2/ 331)و مصنف عبد الرزاق(2/ 176 بتحقیق الأعظمی) [2] حوالہ سابقہ۔ [3] مصنف ابن أبي شیبۃ(1/ 295)طبع دار الفکر بیروت۔