کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 440
جلد بازی اس کے کسی کام نہیں آ سکتی،کیونکہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے تو سلام پھیر کر جا نہیں سکتا۔لہٰذا جب یہ عالم ہے تو پھر اسے ہر فعل میں اسی طرح صبر اور اتباعِ امام کا مظاہرہ کرنا چاہیے جس طرح نماز سے سلام پھیرنے میں کرتا ہے۔[1] ایسی ہی بات ’’القبس‘‘ کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ’’لطیفہ‘‘ کے زیر عنوان بھی لکھی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’قَالَ صَاحِبُ الْقَبَسِ:لَیسَ لِلتَّقَدُّمِ قَبْلَ الْاِمَامِ سَبَبٌ اِلاَّ الْاسْتِعْجَال،وَدَوَائُ ہٗ اَنْ یَّسْتَحْضِرَ اَنَّہٗ لَا یُسَلِّمُ قَبْلَ الْاِمَامِ فَلَا یَسْتَعْجِلْ فِیْ ہَذِہٖ الْاَفْعَالِ‘‘[2] ’’صاحب القبس نے لکھا ہے کہ امام سے سبقت لے جانے کا سبب سوائے جلد بازی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟اس مرض کی دوا یہ ہے کہ جلد بازی کرنے والایہ بات ذہن نشین کر لے کہ وہ امام سے پہلے تو سلام پھیر ہی نہیں سکتا۔اگر یہ بات ذہن میں تازہ ہوگی تو پھر وہ ان افعال میں جلد بازی نہیں کرے گا۔‘‘ امام سے سبقت کی ممانعت بعض دوسری احادیث میں بھی آئی ہے۔مثلاً صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے: ((صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمٍ،فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاۃَ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖ فَقَالَ:اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ اِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِیْ بِالرُّکُوْعِ وَلَا بِالسُّجُوْدِ وَلَا بِالْقِیَامِ وَلَا بِالْاِنْصِرَافِ۔۔۔الخ))[3] ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔جب نماز سے فارغ ہوئے تو رخِ انور ہماری طرف کیا اور فرمایا:لوگو!میں تمھارا امام ہوں،مجھ سے سبقت نہ لے جایا کرو،نہ رکوع و سجود میں اور نہ ہی قیام و سلام میں۔۔۔۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم اور شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 287۔301)صحیح مسلم(2/ 4/ 189)سنن البیہقي(2/ 97)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 308۔340)شرح السنۃ للبغوي(3/ 111) [2] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 182،183)شرح السنۃ(3/ 417)