کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 406
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر(رکوع کی حالت میں)پانی بہایا جائے تو وہ بھی(گرنے نہ پائے بلکہ)اوپر ٹھہر جائے۔‘‘ گویا رکوع کی حالت میں کمر بالکل سیدھی ہونی چاہیے۔کسی طرف سے اونچائی کی طرف مائل یا اُٹھی ہوئی ہو نہ کسی طرف سے نیچے کو جھکی ہوئی ہو۔ 4۔ سنن اربعہ،صحیح ابو عوانہ،مسند حمیدی و طیالسی،مصنف ابن ابی شیبہ و عبدالرزاق،صحیح ابن خزیمہ و ابن حبان اور سنن دارمی میں حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا تُجْزِئُ صَلَاۃُ الرَّجُلِ حَتّٰی یُقِیْمَ ظَہْرَہٗ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ))[1] ’’کسی کی نماز اُس وقت تک صحیح نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع و سجود میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔‘‘ یہاں اقامتِ ظَہر سے مراد کمر کو رکوع کی حالت میں آگے پیچھے سے برابر رکھنا ہے،جبکہ سجدے کی صورت میں فرق ہے،جس کی تفصیل اس کے مقام پر آئے گی۔اِن شاء اللّٰه رکوع میں سر کی کیفیت: اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ رکوع میں سر کو کس طرح رکھنا ضروری ہے؟اس معاملے میں کافی کوتاہی دیکھنے میں آتی ہے۔بعض لوگ سر کو بہت زیادہ جھکائے ہوئے بلکہ گھٹنوں میں دبائے ہوئے نظر آتے ہیں اور بعض کمر کو سیدھا نہ کرنے پر مستزاد سر کو بھی بہت اٹھائے ہوتے ہیں،حالانکہ یہ دونوں انداز ہی غیر صحیح ہیں،بلکہ رکوع کی حالت میں کمر کی طرح سر بھی زیادہ جھکا ہوا نہ زیادہ اٹھا ہوا ہو،بلکہ اسے کمر کی سیدھ ہی میں رکھنا چاہیے۔ 1۔ سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد اور جزء القراء ۃ بخاری میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو حُمید ساعدی رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ لَا یَصُبُّ رَاْسَہٗ وَلَا یَقْنَعُ))[2]
[1] صحیح ابن خزیمۃ(1/ 301 و 324 وصححہ)مسند أحمد(4/ 20)شاہد لہ و تخریج صلاۃ الرسول(ص: 260 و 261 و صححہ لشواہدہ)مستدرک الحاکم(1/ 227)سنن البیہقي(2/ 112)مجمع الزوائد(1/ 2/ 138)ابن حبان(ص: 132)رقم الحدیث(488 الموارد) [2] صحیح سنن أبي داود(1/ 141)سنن الترمذي(2/ 117)و صفۃ الصلاۃ للألباني(ص: 73)سنن الترمذي مع التحفۃ(2/ 117)سنن البیہقي(2/ 73)مشکاۃ المصابیح(1/ 251 و صححہ) [3] وقد مرّ قریباً،وانظر صفۃ الصلاۃ أیضاً۔ [4] الصلاۃ للألباني أیضاً،و تخریج صلاۃ الرسول(ص: 260)