کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 394
ایام میں ہے۔[1] انھوں نے یہ حدیث 9ھ یا 10ھ میں بیان کی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا تقریباً آخری سال ہے۔گویا اس وقت تک رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی تھی۔اس کے عدمِ نسخ کا اعتراف خود علامہ سندھی حنفی نے حاشیہ سنن نسائی و ابن ماجہ میں کیا ہے۔[2]
تیسری دلیل:
صحیح مسلم،سنن ابو داود و ابن ماجہ،صحیح ابن حبان و ابن خزیمہ،سنن دارمی،دارقطنی،بیہقی،صحیح ابو عوانہ،مصنف عبد الرزاق،مسند احمد و حمیدی،محلیٰ ابن حزم،التمہید لابن عبدالبر اور جزء القراء ۃ بخاری میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی ہے:
’’میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے شروع میں تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے دیکھا(اور ہمام نے بتایا ہے کہ دونوں کانوں تک)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اوڑھ لی اور اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر باندھ لیا:
((فَلَمَّا أَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ اَخْرَجَ یَدَیْہِ مِنَ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَہُمَا ثُمَّ کَبَّرَ فَرَکَعَ،فَلَمَّا قَالَ:سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ،رَفَعَ یَدَیْہِ۔۔۔الخ))[3]
’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھوں کو کپڑے سے نکالا اور رفع یدین کی،پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا پھر جب ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہا تو رفع یدین کی۔۔۔۔‘‘
حضرت وائل رضی اللہ 9ھ میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے،جیسا کہ علامہ عینی حنفی نے بھی لکھا ہے۔[4] لہٰذا یہ حدیث بھی عدمِ نسخ کی بیّن دلیل ہے،خصوصاً جب تکبیر تحریمہ کے ساتھ والی رفع یدین کی مقدار(کانوں تک)کے لیے احناف یہی حدیث پیش کرتے ہیں تو پھر اس حدیث کے اگلے حصے میں وارد رکوع کے ساتھ والی رفع یدین کو کیوں ترک کر دیتے ہیں؟کیا یہ بھی ایک طرفہ تماشا نہیں؟
[1] فتح الباري(2/ 110،13/ 236)و سیرت ابن ہشام(4/ 169 بتحقیق محمد محي الدین)
[2] حاشیۃ سنن سنن النسائي(1/ 158 مجتبائی)حاشیۃ سنن ابن ماجہ(1/ 146 مصري)
[3] صحیح مسلم(2/ 4/ 114)سنن أبي داوٗد(2/ 410 و 411)صحیح ابن ماجہ للألباني(1/ 143)صحیح ابن حبان(485،الموارد)صحیح ابن خزیمۃ(697)جزء الإمام البخاري(ص: 10،23،27،31،70،71،73)التمہید(9/ 227)المحلیٰ(4/ 91 و 92)سنن البیہقي(2/ 71)سنن الدارقطني(1/ 1/ 290)تحقیق صلاۃ الرسول(ص: 273)
[4] عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري(3/ 9 بیروت)