کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 384
’’جس نے امام کی اقتدا میں شامل ہو کر سورت فاتحہ شروع کی اور تکمیل سے پہلے امام رکوع میں چلا گیا تو یہ شخص رکوع نہ کرے حتیٰ کہ فاتحہ کو پورا کر لے۔دلیل اس کی وہی ہے جو قبل از یں ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ واجب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’میں آپ سے پہلے رکوع یا سجدہ کر گزرتا ہوں تو تم لوگ مسابقت کا ادراک میرے اٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔‘‘ ان واضح اور مصرح دلائل و شواہد سے معلوم ہوا کہ مقتدی سورت فاتحہ پوری کر کے رکوع کرے۔بالفرض کوئی مقتدی فاتحہ نامکمل چھوڑ کر رکوع چلا جائے تو اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے،کیونکہ فاتحہ مکمل سورت کا نام ہے،بعض آیات کا نہیں۔صحیح حدیث میں وارد ہے: ((لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))[1] ’’جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے!‘‘ ہذا ما عندي،واللّٰہ أعلم بالصواب،وعلمہ أتمّ‘‘[2] سکتہ: جب سورت فاتحہ اور کسی سورت یا کسی سورت کے کسی حصے کی قراء ت سے فارغ ہو جائیں تو ایک چھوٹا سا سکتہ کریں،یعنی چند لمحوں کے لیے خاموش کھڑے رہیں،جس کا پتا سنن ابو داود اور مستدرک حاکم[3] میں وارد بعض احادیث سے چلتا ہے۔[4] اس سکتے کے بارے میں امام خطابی نے ’’معالم السنن‘‘ میں کہا ہے کہ مقتدی اس سکتے میں قراء ت کر لے اور امام سے منازعت نہ کرے۔امام دارقطنی کی تبویب سے بھی یہی پتا چلتا ہے اور انھوں نے
[1] متفق علیہ بحوالہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور(جلد 43،شمارہ 29۔6 محرم 1412ھـ بمطابق 19 جولائي 1991ء) [2] حوالہ سابقہ از الاعتصام،لاہور [3] صححہ ھو و الذہبي والألباني في الصلاۃ(ص: 72) [4] سنن أبي داوٗد مع العون(2/ 480،481)سنن الترمذي مع التحفۃ(2/ 79 تا 81)و أوردہ الألباني في الضعیف من السنن،انظر: ضعیف سنن أبي داوٗد(ص: 76،77)ضعیف سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(180،181،844)إرواء الغلیل(ص: 505)مشکاۃ المصابیح(1/ 818)