کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 366
2۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ ہی میں حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عیدین کی پہلی رکعت میں کبھی سورت قٓ{قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ﴾اور دوسری رکعت میں سورۃ القمر{اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ﴾کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔[1]
نمازِ جنازہ:
نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ اور کسی دوسری سورت کا ذکر بھی ملتا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری ’’کتاب الجنائز،باب قراء ۃ الفاتحۃ علی الجنازۃ‘‘[2] ایسے ہی سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،منتقیٰ ابن الجارود،صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت طلحہ رضی اللہ بیان فرماتے ہیں:
((صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَقَرأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ قَالَ:لِتَعْلَمُوْا اَنَّہَا سُنَّۃٌ))[3]
’’میں نے ابن عباس رضی اللہ کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی تو انھوں نے سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا:تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ یہ سنت ہے۔‘‘
امام ابن المنذر نے نقل کیا ہے کہ حضرات عبداللہ بن مسعود،حسن بن علی،ابن زبیر اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ کی مشروعیت کے قائل تھے۔علاوہ ازیں امام شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔جبکہ سنن نسائی اور مصنف عبدالرزاق میں،اسی طرح ’’معرفۃ السنن والآثار‘‘ بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ کہتے ہیں:
((اَلسُّنَّۃُ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ اَنْ یُکَبِّرَ ثُمَّ یَقْرَأُ بِاُمِّ الْقُرْآنِ ثُمَّ یُصَلِّيْ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ثُمَّ یُخْلِصَ الدُّعَائَ لِلْمَیِّتِ،وَلاَ یَقْرَأُ إِلَّا فِي الْاُوْلٰی))[4]
’’نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر کہیں،پھر سورت فاتحہ پڑھیں،پھر(دوسری تکبیر کے بعد)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھیں،پھر(تیسری تکبیر کے بعد)میت کے لیے پُر خلوص دعا کریں اور قراء ت صرف پہلی تکبیر کے بعد ہی ہے۔‘‘
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي،مشکاۃ المصابیح(1/ 266)سنن أبي داوٗد مع العون(4/ 15)
[2] صحیح البخاري مع الفتح(3/ 203)
[3] صحیح البخاري(3/ 203)سنن أبي داوٗد(8/ 495)المنتقیٰ(2/ 4/ 60)مستدرک الحاکم(1/ 510)
[4] فتح الباري(3/ 203 و 204،و صححہ)المنتقیٰ(2/ 4/ 60)