کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 332
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور کوئی دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں بھی سنا دیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو ذرا لمبا کرتے تھے،دوسری کو اس سے چھوٹا رکھتے تھے۔اسی طرح نمازِ عصر میں کرتے اور اسی طرح ہی نماز فجر میں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ عنوان رقم کیا ہے:’’بَابٌ یَقْرَأُ فِی الْاُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ جو حکم چار رکعتوں والی نماز کی آخری دو رکعتوں کا ہے،وہی حکم نمازِ مغرب کی تیسری رکعت کا بھی ہے۔[1] البتہ نمازِ ظہر و عصر کی آخری دو رکعتوں میں بھی بعض چھوٹی سورتوں یا چند آیات کی قراء ت کے استحباب کا بھی پتا چلتا ہے جس کی تفصیل آگے چل کر ’’نمازِ ظہر کی آخری دو رکعتوں میں کبھی کبھی قراء ت کر لینا‘‘ کے زیر عنوان آ رہی ہے۔ نمازِ پنج گانہ اور دوسری نمازوں میں سے جہری و سِرّی نمازیں: مختلف نمازوں کے لیے ثابت شدہ قراء ت کا ذکر شروع کرنے سے قبل یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور نمازِ مغرب و عشا کی پہلی دو دو رکعتوں میں جہری قراء ت کرنا،جبکہ نمازِ ظہر و عصر کی چاروں رکعتوں میں،نمازِ مغرب کی تیسری رکعت میں اور نماز عشا کی آخری دو رکعتوں میں سراً قراء ت کرنا مسلمانوں کے مابین ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور یہ اجماع سلف صالحین سے نقل ہوتا آ رہا ہے جس کی تائید بھی امام نووی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔[2] ان میں سے بعض احادیث آگے آنے والی ہیں۔اسی طرح نمازِ جمعہ و عیدین اور نمازِ استسقا و کسوف میں بھی جہری قراء ت ہے،جیسا کہ ان کے مواقع پر تفصیل آئے گی۔عام نوافل میں جو انفرادی طور پر پڑھے جاتے ہیں،ان میں دن کے وقت تو قراء ت سِرّی ہی ہو گی،البتہ رات کے وقت سری بھی ہو سکتی ہے اور جہری بھی۔افضل یہ ہے کہ درمیانی آواز رکھی جائے۔[3] جیسا کہ سنن ابو داود اور شمائلِ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 260) [2] بحوالہ صفۃ الصلاۃ(ص: 57) [3] فقہ السنۃ(1/ 157،اردو مکتبہ چراغِ راہ کراچی)و حاشیہ صفۃ الصلاۃ(ص: 57)