کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 325
جب صبح ہوئی تو اس آدمی نے اس کا ذکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے کیا تو انھوں نے فرمایا:
’’لِاُمِّکَ الْوَیْلُ أَلَیْسَتْ تِلْکَ صَلَاۃُ الْمَلَا ئِکَۃِ‘‘[1]
’’تیری ماں پر افسوس!کیا یہ فرشتوں کی نماز نہیں؟‘‘
علامہ علی متقی نے ’’کنز العمال‘‘ میں یہ روایت ذ کر کے فرمایا ہے:
’’وَلَہُ حُکْمُ الرَّفْعِ‘‘[2] ’’یہ حدیث حکماً مرفوع ہے۔‘‘
اس کے حکماً مرفوع ہونے کا سبب دراصل یہ ہے کہ فرشتوں کی نماز کا علم سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے حضرت عمر رضی اللہ کو نہیں ہو سکتا تھا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس میں عقل و اجتہاد کو دخل ہو۔یہی روایت مولانا محمد یوسف بنوری نے ’’معارف السنن‘‘(3/ 15)میں اور علامہ انور شاہ کاشمیری نے ’’فصل الخطاب مطبوع علٰی ھامش الکتاب المستطاب للمحدث روپڑی‘‘(ص:130)میں ذکر کی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔یہ روایت تفسیر ابن جریر(14/ 54)میں بھی مروی ہے،لیکن اس کی سند کچھ مختلف ہے،تاہم ابو عبید کی سند مرسل ہے اور ابن جریر کی سند بھی جابر تک صحیح ہے،لیکن یہ جابر مستور ہے۔بہرحال احناف کے نزدیک مرسل بھی چونکہ حجت ہے،لہٰذا مزید کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
الغرض ان چھے دلائل کی رُو سے سورت فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت یا سورت کا کوئی حصہ ملانا سنت ہے،واجب نہیں۔اگر کبھی کوئی صرف سورت فاتحہ پڑھ کر ہی رکوع کر لے تو وہ اسے کفایت کر جائے گی اور اس طرح بھی اس کی نماز صحیح ہوگی۔یہاں ہم یہ بات بھی کہتے جائیں کہ اس طرح محض جائز ہے،لہٰذا اس جواز کو آڑ بنا کر ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی سورت ملائی ہی نہ جائے،بلکہ کسی سورت کا ملانا چونکہ سنت و مستحب ہے اور نماز سے باہر بالعموم اور دورانِ نماز بالخصوص تلاوتِ قرآن ایک عظیم کارِ ثواب ہے،لہٰذا سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت بھی ملانی چاہیے،تاکہ ثواب میں اضافہ ہو۔اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے کوئی جلدی ہو تو اس جواز پر عمل کیا جا سکتا ہے،تاکہ ارکانِ نماز میں توڑ پھوڑ نہ کرنی پڑے کہ نہ رکوع،نہ قومہ،نہ سجدہ،سب ایک حرکت مسلسل ہی ہو جسے نمازی نماز سمجھے رہے،بلکہ اس جواز پر عمل کر لے اور ارکانِ نماز کو اطمینان کے ساتھ اور مکمل طور پر ادا کرے۔
[1] الدُر المنثور(1/ 6)
[2] کنز العمال(4/ 206،207)و بحوالہ فصل الخطاب(ص: 130)علی الکتاب المستطاب طبع الادارۃ المحمدیۃ،لاہور