کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 322
احادیث سے یہ بات تو ثابت کی جا چکی ہے کہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی،لہٰذا یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے ماسویٰ فاتحہ کے قراء ت نہ کرنے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام مالک اس بات کے قائل ہیں کہ فجر کی سنتوں میں صرف سورت فاتحہ ہی پڑھی جائے،جبکہ جمہور اہل علم مستقل ایسا کرنے کے قائل نہیں،بلکہ بعض صحیح احادیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں بھی سورت فاتحہ کے ساتھ بعض دوسری سورتیں پڑھا کرتے تھے۔لہٰذا جمہور فجر کی سنتوں میں بھی سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری سورتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں،البتہ اس حدیث سے سورت فاتحہ کی کفایت اور دوسری کسی سورت کی سنّیت کا پتا چلتا ہے کہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا سنت و مستحب ہے،واجب نہیں ہے۔[1] چوتھی دلیل: اس بات کی تائید صحیح ابن خزیمہ،کتاب القراء ۃ بیہقی،مسند ابی یعلی،معجم طبرانی کبیر اور مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم جَآئَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ لَمْ یَقْرَأْ فِیْہِمَا اِلاَّ بِاُمِّ الْقُرْآنِ))[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں،اُن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت فاتحہ کے سوا کچھ قراء ت نہ کی۔‘‘ اس حدیث پر امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’بَابُ ذِکْرِ الدَّلِیْلِ عَلٰی اَنَّ الصَّلَاۃَ بِقِرَائَ ۃِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ جَائِزَۃٌ دُوْنَ غَیْرِہَا مِنَ الْقِرَائَ ۃِ وَاَنَّ مَا زَادَ عَلٰی فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ مِنَ الْقِرَائَ ۃِ فِی الصَّلَاۃِ فَضِیْلَۃٌ لاَ فَرِیْضَۃٌ‘‘ ’’اس بات کی دلیل کے تذکرے پر مشتمل باب کہ نماز میں سورت فاتحہ پڑھ لیں تو کافی ہے،جبکہ دوسری کوئی سورت اس کی جگہ کفایت نہیں کرتی اور سورت فاتحہ کے بعد والی قراء ت باعثِ فضیلت تو ہے لیکن وہ فرض نہیں۔‘‘
[1] الفتح(3/ 47) [2] صحیح ابن خزیمۃ(1/ 258)کتاب القراء ۃ(ص: 22)مسند أحمد۔الفتح الرباني(3/ 8/ 227)توضیح الکلام(1/ 216)