کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 319
کروں گا۔ادھر خود اُس نوجوان نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا کہہ سنانے کا تہیا کر لیا۔صبح دونوں عدالت عالیہ میں حاضر ہو گئے۔حضرت معاذ رضی اللہ نے اس نوجوان کے فعل کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو اُس نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!یہ آپ کے پاس کافی دیر تک رہتے ہیں اور پھر جا کر جب ہمیں نماز پڑھاتے ہیں تو ہمیں نماز میں بہت دیر تک روکے رکھتے ہیں۔(یعنی لمبی قراء ت کرتے ہیں)اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
((أَفَتَّانٌ اَنْتَ یَا مُعَاذُ؟))
’’اے معاذ!کیا تم ایسے کر کے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
پھر اس نوجوان سے مخاطب ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
((کَیْفَ تَصْنَعُ اَنْتَ یَا ابْنَ اَخِیْ اِذَا صَلَّیْتَ؟))
’’اے میرے بھتیجے!تم نماز کیسے پڑھتے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’اَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ،وَاَسْاَلُ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ،وَاَعُوْذُ بِہٖ مِنَ النَّارِ،وَاِنِّیْ لاَ اَدْرِیْ مَا دَنْدَنَتُکَ وَدَنْدَنَۃُ مُعَاذ۔۔۔‘‘
’’میں تو سورت فاتحہ پڑھتا ہوں،اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور اس کے ساتھ نارِ جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔میں معاذ کی طرح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ادعیہ و اذکار نہیں جانتا ہوں۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنِّیْ وَمُعَاذُ حَوْلَ ہَاتَیْنِ اَوْ نَحْوَ ہٰذَا نُدَنْدِنُ))[1]
’’میں اور معاذ بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
اس واقعے سے کسی سورت یا اس کے کسی حصے کے عدمِ وجوب اور صرف سورت فاتحہ پر اکتفا کرنے پر یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے نماز کی کیفیت و طریقہ پوچھا تو اس نے سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری کسی سورت کا تذکرہ نہیں کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی
[1] صفۃ الصلاۃ(ص: 56)مشکاۃ المصابیح(1/ 265)صحیح سنن أبي داود(1/ 150)سنن البیہقي(3/ 117)الإرواء(1/ 328)و مع العون(3/ 11)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 262،263)