کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 315
بعینہٖ یہی معاملہ مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔[1] معروف صوفی محی الدین ابن عربی بھی آمین بالجہر کے قائل تھے۔[2] امام غزالی رحمہ اللہ بھی آمین بالجہر کو سنت قرار دیتے تھے۔[3] علامہ حصفکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مقتدی امام کی آواز سن کر آمین کہیں۔۔۔اور جہر اُس کو کہتے ہیں کہ سب سنیں۔[4]
پیر پیراں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ:
مشہور و معروف بزرگ پیر پیراں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے مریدانِ باصفا بھی نوٹ کر لیں کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’غُنیۃ الطالبین‘‘ میں ’’ہیئتِ نماز‘‘ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’وَالْجَہْرُ بِالْقِرَائَ ۃِ وَآمِیْن وَالْاِسْرَارُ بِہِمَا‘‘[5]
’’قراء ت و آمین(جہری نمازوں میں)بلند آواز سے کہنا اور(سِرّی نمازوں میں)آہستہ کہنا۔‘‘
فریق ثانی:
فریق اوّل یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی رائے رکھنے والوں کے برعکس فریق ثانی کا اختیار یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے نہیں،بلکہ امام و مقتدی جہری نمازوں میں بھی سراً ہی آمین کہیں۔اپنے اس مسلک کی تائید میں وہ بعض روایات بھی پیش کرتے ہیں،جنھیں ہم نے اس موضوع سے متعلق اپنی مستقل کتاب ’’آمین۔۔۔‘‘ میں ذکر کر کے اُن کا قدرے تفصیلی تجزیہ کیا ہے،جس کا دو حرفی نتیجہ یہ ہے کہ وہ روایات از روے سند و متن مختلف وجوہات کی بنا پر ان کی دلیل نہیں بن سکتیں،لہٰذا از روئے قوت ِدلیل اس مسئلے میں فریق اول یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی رائے رکھنے والوں کا پلہ بھاری ہے۔[6]
اس بنا پر ہمیں چاہیے کہ امام ہوں یا مقتدی،جہری نمازوں(فجر و مغرب و عشا وجمعہ وغیرہ)
[1] معارف الحدیث(3/ 264)طبع لکھنؤ۔
[2] بحوالہ آمین بالجہر گھرجاکھی(ص: 21،22)
[3] إحیاء العلوم(1/ 154)
[4] دُرِمختار حصفکی(1/ 230)مترجم۔
[5] غنیۃ الطالبین مترجم اردو(ص: 22،23)طبع نفیس اکیڈمی،کراچی
[6] تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: ’’آمین،معنی و مفہوم،فضیلت،امام و مقتدی کے لیے حکم‘‘ زیر بعنوان: ’’مانعینِ جہر کے دلائل‘‘