کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 308
آپ کے مذہب کی کتابیں اور علما کا فتویٰ ہے کہ دواد پڑھنے سے نماز میں خلل و فساد پیدا ہوتا ہے تو پھر آپ کیوں اپنی نمازوں کو فاسد کرتے ہیں؟بھائیو!خدا سے ڈرو،ضد و نفسانیت کو چھوڑ دو اور غلط رویہ ترک کر کے صحیح طریقہ اختیار کرو۔وباللّٰہ التوفیق۔
مولانا عبدالحی حنفی لکھنوی فرماتے ہیں کہ حرف ضاد حرف ظا کے مشابہ ہے۔اگر مخرج خاص سے اس کا استخراج نہ ہو تو مشابہ ’’ظ‘‘ یا ’’ذ‘‘ کے اگر پڑھے گا تو نماز درست ہوگی اور مشابہ دال کے پڑھنے سے نماز میں خلل ہوگا۔خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے:
’’إن ذکر حرفًا مکان حرفٍ،وغیر المعنی،إن أمکن الفصل کالطاء مکان الصاد تفسد صلاتہ،وإن کان لا یمکن الفصل إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والطاء مع التاء والصاد مع السین،اَلأکثر علٰی أنہ لا یفسد‘‘
’’اگر کسی حرف کی جگہ دوسرا حرف کہہ دیا جس سے معنی بدل جائے جبکہ ان دونوں حرفوں میں فرق مشکل بھی نہ ہو،جیسے ’’ط‘‘ اور ’’ص‘‘ میں تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر سخت مشقت کے بغیر فرق کرنا ممکن نہ ہو جیسے ’’ظ‘‘ اور ’’ض‘‘ یا ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ یا پھر ’’ص‘‘ اور ’’س‘‘ میں تو اکثر اہل علم کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
’’لو قال:غیر المغضوب بالظاء،والضالین بالذال والظاء،لا تفسد لعموم البلوٰی،وکثیر من المشائخ أفتوا بہ‘‘ انتہی
’’اگر کسی نے ’’غیر المغضوب‘‘ کو ’’ظ‘‘ کے ساتھ اور ’’الضالین‘‘ کو ’’ذ‘‘ یا ’’ظ‘‘ کے ساتھ پڑھا تو نماز فاسد نہیں ہوتی،کیونکہ اس کمزوری میں عوام کی اکثریت مبتلا ہے اور کثیر مشائخ کا یہی فتویٰ ہے۔‘‘
حرّرہ الراجی عفو ربہ القوی أبو الحسنات محمد عبد الحی
اس مضمون پر مندرجہ ذیل علما کی مواہیر بھی ثبت ہیں۔ملاحظہ ہوں:
مہر سید شریف حسین۔مہر سید محمد نذیر حسین۔مہر محمد عبدالحمید۔مہر سید احمد حسن۔مہر تلطف حسین۔
حضرت العلامہ میاں صاحب مولانا سید محمد نذیر حسین رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند مولانا سید محمد شریف