کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 306
یقع خلاف في إبدالہا دالاً کما وقع في الظاء فالنطق بہا دالاً لم یقل أحدٌ بِصحّتہ‘‘[1] ’’اگر ’’ض‘‘ کو سوائے ’’ظ‘‘ کے کسی دیگر حرف کے ساتھ بدلا تو قراء ت ہر گز درست نہ ہوگی۔ضاد کو دال پڑھنے سے نماز کے فاسد ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اور ایسی قراء ت کے صحیح ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں۔‘‘ فتاویٰ تاتارخانیہ،قاضی خان اور خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے: ’’لو قرأ الضّالّین بالظاء مکان الضّاد أو بِالذّال لا تفسد صلاتہ،ولو قرأ الدّوالِّین تفسد‘‘[2] ’’ضالین‘‘ کو ’’ظ‘‘ یا ’’ذال‘‘ سے پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اگر ’’الضالین ‘‘کو ’’الدوالین ‘‘دال سے پڑھا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔‘‘ ’’ض ‘‘کو ’’ظ ‘‘پڑھنے سے عدمِ فسادِ صلوٰۃ کی وجہ علما نے یہ بیان کی ہے کہ ’’ض‘‘ مماثل ومشابہ ’’ظ‘‘ کے ہے اور عوام کے لیے ان دونوں میں تمیز مشکل ہے۔ چنانچہ علامہ جزری ’’تمہید في علم التجوید‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’إِعلم أنّ ہذا الحرف۔یعني الضاد۔لیس في الحروف حرفٌ یعسر علی اللسان مثلہ‘‘ ’’حروف میں حرف ضاد کی طرح کوئی اور حرف دشوار نہیں ہے۔‘‘ علامہ ابو محمد مکی ’’کتاب الرعایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’الضّاد حرفٌ یشبہ لفظہ في السّمع بلفظِ الظاء‘‘ ’’ضاد ایک ایسا حرف ہے جو سننے میں ظا کے مشابہ ہے۔‘‘
[1] اقتصاد(ص: 13)عذر و مجبوری میں احکام میں گنجایش ہو جاتی ہے۔لہٰذا اگر علومِ تجوید سے نابلد آدمی اپنی بھرپور کوشش کر کے بھی ضاد،دواد،ظا،دال اور ایسے ہی دیگر متشابہ حروف میں فرق نہ کر سکے تو اس کی نماز باطل ہوگی نہ اس کے فاسد ہونے کا فتویٰ دینا چاہیے،کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: {فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} اور ارشاد ہے: {وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ} ایسے ہی اس موضوع پر کتنی ہی احادیث بھی دلالت کرتی ہیں،لہٰذا تشدد مناسب نہیں ہے۔(مولف) [2] اقتصاد(ص: 13)