کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 304
مہملہ کے پڑھتے ہیں،اس لیے دواد ہی صحیح ہے۔اس کے جواب میں علامہ جاربردی کا قول پیش کر دینا ہی کافی ہے کہ عرب کا جب غیروں کے ساتھ اختلاط ہوا تو برے حروف پیدا ہو گئے۔جب دین اسلام آیا اور غیر جنس کی لونڈیاں پکڑیں اور ان سے اولاد پیدا ہوئی: ’’فأخذوا حروفًا من لغۃ اُمَّہاتہم وخلطوھا بلغۃ العرب‘‘[1] ’’تو انھوں نے اپنی ماؤں کی بولی سے حرف سیکھ کر عربی میں ملا دیے۔‘‘ بس یہی وجہ ہے کہ آج عرب میں غیر عربی اَلفاظ رائج و مستعمل ہیں۔جیسے ’’گ‘‘ فارسی زبان کا حرف ہے،آج عرب میں کثرت سے مستعمل ہے۔’’اَقُوْلُ لَکَ‘‘ کو ’’اگل لک‘‘ کہتے ہیں۔’’قُمْ‘‘ کو ’’گم‘‘ کہتے ہیں،حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔جب ایک غلط چیز عام طور پر مروّج و مستعمل ہو جاتی ہے تو لوگ اسی کو صحیح سمجھتے ہیں۔اسی طرح ’’ض‘‘ کو ’’دواد‘‘ کر دینا کیا بعید ہے۔پس ان کی تقلید سے ہندوستان وغیرہ میں بھی ’’ض‘‘ کو ’’دواد‘‘ پڑھنے لگے ہیں،حالانکہ اصل میں دواد کوئی حرف ہی نہیں۔علیٰ ہذا القیاس اس زمانے کے افغان اور غزنی کے نواح کے لوگ ضاد کو غداد پڑھتے ہیں،’’وَلاَ الضَّالِّین‘‘ کو ’’وَلَغدوالِّین‘‘ کہتے ہیں۔ترکی لوگ عموماً ’’ک‘‘ کی جگہ ’’چ‘‘ پڑھتے ہیں،چنانچہ ’’إیاک نعبد و إیاک نستعین‘‘ کو ’’إیاچ نعبد و إیاچ نستعین‘‘ پڑھتے ہیں۔الغرض دواد پڑھنے کے متعلق جس قدر بھی مغالطات دیے جاتے ہیں،سب اسی طرح لچر پوچ ہیں جو اہل تحقیق کے نزدیک تارِ عنکبوت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ ’’ض‘‘ کو ’’ظ‘‘ پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی: دُرِ مختار میں ہے: ’’اِلَّا ما یشقّ تمیّزہ کالضّاد والظّاء،وأکثرہم لم یفسدہا‘‘[2] ’’اگر ایک حرف کو دوسرے ایسے حرف سے بدلا کہ ان دونوں میں فرق کرنا مشکل ہے،جیسے ض اور ظ میں،تو اس سے بہرصورت نماز نہیں ٹوٹتی،اکثر علما کا یہی مذہب ہے۔‘‘ فتاویٰ عالمگیری وقاضی خاں میں ہے:
[1] اقتصاد(ص: 7) [2] اقتصاد(ص: 11)