کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 296
مانعینِ قراء تِ فاتحہ: تین ائمہ اور جمہور فقہا و محدثین کرام تو مقتدی کے لیے قراء تِ فاتحہ کو ضروری قرار دیتے ہیں،جیسا کہ ان کے دلائل بھی گزرے ہیں،جبکہ کتنے علماء احناف بھی اسی رائے کے قائل اور اسی کے فاعل گزرے ہیں،البتہ اکثر احناف مقتدی کے لیے قراء تِ فاتحہ کے حق میں نہیں ہیں اور انھوں نے اپنے اس مسلک کی تائید کے لیے فریق اوّل کی طرح آیات و احادیث اور آثار پیش کیے ہیں جن کا یکے بعد دیگرے بالتفصیل جائزہ ہم نے لیا ہے اور اہل علم کی تحقیقات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ ان کے وہ تمام دلائل محض دلائل کی گنتی بڑھانے والی بات ہے،ورنہ ان میں کوئی خاص ’’جان‘‘ نہیں۔بعض اشیا صحیح ہیں تو وہ اس مسئلے میں صریح نہیں اور اگر کوئی صریح ہے تو وہ صحیح نہیں،حتیٰ کہ حسن درجے کی بھی نہیں۔ان سب تفصیلات کو ہم نے اس مسئلے پر اپنی تفصیلی کتاب میں ذکر کر دیا ہے،بنا بریں ہم یہاں ان سب کا نقل کرنا اب ضروری نہیں سمجھتے۔[1] عطر گل: ماضی قریب کے ایک معروف حنفی محقق علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اپنی تحقیقات کانچوڑ(عطر گل)ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فَظَہَرَ اَنَّہُ لاَ یُوْجَدُ مُعَارِضٌ لِأَحَادِیْثِ تَجْوِیْزِ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ مَرْفُوْعًا‘‘ ’’یہ بات واضح ہے کہ قراء ت فاتحہ خلف الامام کا پتا دینے والی صحیح احادیث کا مقابلہ و معارضہ کرنے والی کوئی بھی مرفوع حدیث نہیں ہے۔‘‘ آگے اسی صفحے پر لکھا ہے: ’’لَمْ یَرِدْ فِیْ حَدِیْثٍ مَرْفُوْعٍ صَحِیْحٍ النَّہْیُ عَنْ قِرَائَ ۃِ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ،وَکُلَّ مَا ذَکَرُوْہُ اِمَّا لاَ اَصْلَ لَہُ وَاِمَّا لاَ یَصِحُّ‘‘[2] ’’کسی مرفوع و صحیح حدیث میں قراء تِ فاتحہ خلف الامام کی ممانعت وارد نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث ہیں وہ یا تو بے سند ہیں یا پھر وہ از روے سند صحیح نہیں ہیں۔‘‘
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں : ’’قراء ۃ سورۃ الفاتحۃ۔۔۔‘‘ [2] التعلیق الممجد علی موطأ الإمام محمد(ص: 99)طبع کراچی۔