کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 289
سے مروی دس حدیثیں ایسی ہیں جن سے فاتحہ کی فرضیت کا پتا چلتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے جس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے،اس میں ارشاد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))[1] ’’جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی،اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔‘‘ 2۔ صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی رحمہ اللہ ہے: ((مَنْ صَلّٰی صَلَاۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیْہَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ۔۔۔ثَلَاثًا۔۔۔غَیْرُ تَمَامٍ))[2] ’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی وہ نماز ناقص ہے۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی کہ۔۔۔وہ نامکمل ہے۔‘‘ اسی حدیث میں آگے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔نماز کی اس تقسیم کی وضاحت میں ’’نماز‘‘ سورت فاتحہ ہی کو قرار دیا گیا ہے۔اسی لیے اس سورت کا نام ’’الصلاۃ‘‘ بھی ہے۔یہ حدیث نماز میں سورت فاتحہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔ مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟ مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟اس سلسلے میں عہدِ قدیم سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ایک فریق کا کہنا ہے کہ مقتدی کم از کم سورت فاتحہ تو ضرور پڑھے اور دوسرے فریق کے نزدیک مقتدی کا صرف خاموشی سے سننا ہی ضروری ہے۔ قائلینِ قراء ت: امام ترمذی نے اپنی سنن میں لکھا ہے کہ مقتدی کو بھی بہرحال سورت فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے،اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا عمل رہا ہے۔امام مالک،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ بھی امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔[3]
[1] صحیح البخاري مع الفتح(2/ 237)صحیح مسلم مع شرح النووي(2/ 3/ 100)مشکاۃ المصابیح(1/ 262 بتحقیق الألباني)جزء القراء ۃ للبخاري مترجم اردو(ص: 27 طبع احیاء السنۃ گرجاکھ گوجرانوالہ)بقیہ نو احادیث ہم نے قراء تِ فاتحہ سے متعلق اپنی تفصیلی کتاب میں درج کر دی ہیں جو الگ سے زیر طباعت ہے۔اس کا مطالعہ آپ کے تمام شکوک و شبہات کو زائل کر دے گا۔ان شاء اللہ [2] موطأ مع الزرقاني(1/ 175 تا 177)و بحوالہ مشکاۃ المصابیح(1/ 262)و تفسیر ابن کثیر(1/ 9 بیروت) [3] سنن الترمذي مع تحفۃ الأحوذي(2/ 230،طبع مدنی و بیروت)