کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 288
قراء ت ِسورۃ الفاتحہ دعاے استفتاح ’’سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ‘‘ یا ’’اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِيْ۔۔۔‘‘ تعوذ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ اور تسمیہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ کے بعد نماز میں حالت قیام میں سورت فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ فضلیت: سورۃ الفاتحہ انتہائی فضیلت و برکت والی سورت ہے۔اسے الفاتحۃ،اُمُّ الکتاب،اُمُّ القرآن،القرآن العظیم،السبعُ المثاني،فاتحۃ الکتاب،اَلرُّقیۃ(دَم)،الحمد،الصلَاۃ،الشفاء،الکافیۃ،الوافیۃ اور الکنز جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔[1] مولانا عبدالستار صاحب رحمہ اللہ نے ’’تفسیر ستاری‘‘ میں اس کے تیس نام ذکر کیے ہیں۔[2] ’’فاتحہ‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز،مضمون یا کتاب کا افتتاح ہو۔قرآن کریم کا افتتاح چونکہ اسی سورت سے ہوتا ہے،لہٰذا اس کا نام ’’الفاتحۃ‘‘ اسی مناسبت سے ہے۔بالفاظِ دیگر یہ نام ’’دیباچہ‘‘ اور ’’آغازِ کلام‘‘ کا ہم معنی ہے۔[3] فرضیت: نماز کی ہر رکعت میں امام اور منفرد(اکیلے نمازی)کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا تمام ائمہ و فقہا اور محدثین کرام کے نزدیک بلا اختلاف فرض ہے۔اس سلسلے میں فرض و نفل اور بلند آواز یا پست آواز والی قراء ت سے پڑھی جانے والی نمازوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ 1۔ اس سلسلے میں صحیحین و سنن اربعہ اور دیگر متعدد کتبِ حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ
[1] تفسیر الکشاف(1/ 23،24،دارالمعرفۃ بیروت)تفسیر ابن کثیر(1/ 8،9 طبع بابی مصر و دار المعرفۃ بیروت)و دیگر کتب تفسیر۔ [2] تفسیر ستاري(1/ 68،92 طبع چہارم،مکتبہ ایوبیہ کراچی) [3] تفہیم القرآن،مولانا مودودی(1/ 42 مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور،طبع 1981ء)