کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 285
’’دیارِ غربت(قیامِ امریکہ)میں کتب کی عدم موجودگی کے باعث بالوضاحت اور بالتصریح نہیں لکھ سکا۔خصوصاً کئی حوالے رہ گئے ہیں۔اسی طرح عزیز احمد صدیقی نے اپنی ایک کتاب میں علم الاعداد کی بہت سی شیعی کارستانیاں جمع کی ہیں۔ ’’جہاں تک رسول اللہ ا کی سنت مطہرہ ہے وہ تو کافروں کو بھی خط لکھتے تو ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے شروع کرتے تھے۔کیا یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اور ائمہ کرام سے بڑھ کر ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کی تعظیم کرنے والے ہیں؟اگر تعظیم کے لیے عدد نکالنا ہی ضروری ہیں تو کیا باپ کو نمبر5 کہتے ہوں گے؟یا خط لکھتے ہوئے پیارے اباجان کی جگہ پیارے 60 لکھتے ہوں گے؟اور اگر کوئی باپ کو ’’ابی‘‘ کہتا ہو گا تو نمبر15 لکھتا ہوگا؟اسی طرح اگر کسی کے اعداد 420 نکل آئے یا 302 تو کیا ہو گا؟ماں کو 91 نمبر سے بلائیں گے کیا؟پھر تو ماں باپ اور عزیز و اقارب نہ ہوئے مختلف روٹ پر چلنے والی ویگنیں اور بسیں ہو گئیں۔ ’’قارئینِ کرام!حقیقتاً علم الاعداد اور حروفِ ابجد خفیہ زبان(کوڈ وَرڈز)ہیں جنہیں عامۃ الناس دین کا حصہ بنا چکے ہیں،حالانکہ قرآن و احادیث تو دورکی بات،ائمہ و فقہا سے بھی اس کا ثبوت مہیا کرناناممکن ہے۔‘‘[1] اسی سلسلے میں ایک مضمون ’’صدقِ جدید لکھنؤ‘‘ میں مولانا عبدالحفیظ رحمانی صاحب کا شائع ہوا،اور اس پر تعاقب ہوا جس پر جواب الجواب لکھا گیا۔پھر مولانا رحمانی نے مختصر وضاحتی مضمون لکھا جو ’’الاسلام‘‘ میں شائع ہوا تھا۔اسے بھی برائے افادئہ عام یہاں نقل کر رہے ہیں۔چنانچہ موصوف درج ذیل عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کی شرعی حیثیت: ’’تقریباً پانچ سال پہلے ’’صدق جدید‘‘ لکھنؤ میں ایک مضمون راقم الحروف نے ’’786‘‘ کے خلافِ سنت ہونے پر لکھا تھا اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا تھا کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کے بجائے ’’786‘‘ لکھنا لغو اور مہمل ہے۔مسلمانوں میں یہ عدد کب سے رائج پذیر ہوا؟اس کا سراغ نہیں ملا۔ہاں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ رواج یہود اور ہنود سے متاثر
[1] ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ لاہور(25 دسمبر 1992ء)