کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 275
اگرچہ اس کے پس پردہ کار فرما اسباب و محرکات بہت پیچیدہ ہیں،پھر بھی اس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ہزارہا برس پہلے مصر،بابل،آشوریہ،یونان اور ہندوستان میں اس کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس کا ظہور ریاضی،جیومیٹری(اقلیدس)اور علمِ ساخت یا حساب المثلثات سے ہوا۔اس سلسلے میں جس شخص کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے وہ یونان کا معروف فلسفی فیثاغورث ہے،جو آواگون(تناسخ)کے نظریے کے لیے مشہور ہے جس کو ہندو مذہب اور فکریات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس کی رائے میں اعداد کو ماہیتِ عالم کے ساتھ گہرا تعلق ہے،جبکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ہر شے کو اعداد میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔اس سے وہ علم ظہور میں آیا جسے جی میٹریا کہتے ہیں۔چنانچہ یہود کے یہاں یہ مخصوص سِرّی علم کبالا کے نام سے مشہور ہے،جو سحر و بزنگ اور فلسفے کے امتزاج پر مبنی ہے۔اس کی بنیاد عبرانی صحائف کے بائیس(22)حروفِ تہجی اور ان کے مترادف اعداد پر ہے۔ان کے ذریعے سے یہود کے صحائف کے رموز و معانی دریافت ہوتے ہیں،جس کی عملی صورت یہ ہے کہ الفاظ کو اعداد میں تحویل کیا جائے۔یہ بڑی سہل ترکیب ہے،کیونکہ الفاظ جن حروف پر مشتمل ہیں،ان کی عددی قیمتوں کو جمع کر لیا جائے،اس طرح ہمیں ان مقدس عبارتوں کا عددی بدل حاصل ہو جاتا ہے جو اس علم کے حامیوں کے نزدیک ویسے ہی تقدس کا حامل ہے۔
’’یہ علم مسلمان ندرت پسندوں نے حاصل کیا،جسے عرف عام میں ’’ابجد‘‘ کہتے ہیں۔ایک مغربی محقق تھامسن پیٹرک ہیولز اپنی تالیف ’’ڈکشنری آف اسلام‘‘ میں ابجد کی توضیح ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’یہ حروف تہجی کی ریاضیاتی طور پر ترتیب کا نام ہے جس میں حروف کی عددی قیمت متعین ہوتی ہے جو 1 سے لے کر 1000 تک مقرر ہے۔یہ وہ ترکیب ہے جس کا سلسلۂ اعداد صرف 200 تک پہنچتا ہے۔اہلِ عرب نے اس میں چھ اور حروف شامل کیے(جس سے آخری قیمت 1000 قرار پائی)