کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 233
’’کُلُّ ذٰلِکَ وَاسِعٌ عِنْدَہٗ،اِنْ وَضَعَ فَوْقَ السُّرَّۃِ اَوْ عَلَیْہَا اَوْ تَحْتَہَا‘‘[1]
’’اس امر میں ان کے نزدیک وسعت ہے۔چاہے کوئی ہاتھ ناف کے اوپر باندھے یا ناف پر یا ناف کے نیچے(ہر طرح جائز ہے)۔‘‘
یہی بات امام ابنِ قدامہ نے المغنی میں بھی لکھی ہے۔[2] یہ تو ہوئی محض جواز کی بات،جبکہ افضیلت اور حجیت اہلحدیث اور شوافع والے مسلک کو ہی حاصل ہے،کیونکہ ان کے دلائل سب سے قوی تر ہیں۔
راہِ اعتدال:
اب رہی بات اختیار کرنے کی تو اگر کوئی اَرجح کو اختیار کرے تو وہ بھی اعتدال سے کام لے اور اگر کسی کو ضرور مرجوح ہی کو اختیار کرنا ہے تو وہ بھی اعتدال کی حدود ہی میں رہے۔انتہا پسندی اور تشدد کسی کے لیے بھی مناسب نہیں۔لیکن یہ چیز جانبین کے بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اس سلسلے میں ایک انتہائی معتدل مزاج عالمِ دین شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی رحمہ اللہ آف گوجرانوالہ نے اپنی کتاب ’’تحریک ِ آزادیِ فکر‘‘ میں لکھا ہے:
’’بعض حضرات بے حد غلو کرتے ہیں اور یہ غلو دونوں طرف سے ہو رہا ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘(زیر ناف)کے قائلین بعض حضرات ہاتھوں کو اِس قدر لٹکا دیتے ہیں کہ ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘(زیرِ ناف)کے بجائے ’’فَوْقَ الْعَانَۃِ‘‘(یعنی زائد بالوں کی مخصوص جگہ پر ہاتھ باندھنے)کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔یعنی ’’زیر ناف‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں اور ’’فَوْقَ السُّرَّۃِ‘‘(ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے)کے قائلین ’’تَحْتَ الْعُنُقِ‘‘ یعنی گردن کے قریب باندھتے ہیں۔یہ صورتیں نہایت بدنما اور مکروہ محسوس ہوتی ہیں۔رہا ادب اور تعظیم،وہ تو سینے پر ہاتھ باندھنے سے ہوتا ہے۔ہاتھ نیچے لٹکا دینا تو ادب کے خلاف ہی نہیں بلکہ مکروہ معلوم ہوتا ہے۔تلاوت کے وقت،سلام کے بعد ادب کے لیے عموماً ہاتھ سینے ہی پر رکھے جاتے ہیں،زیرِ ناف رکھتے آج تک ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘[3]
[1] بدائع الفوائد(2/ 3/ 91)
[2] المغني(2/ 141)
[3] تحریک آزادیِ فکر(ص: 250،مرتبہ مولانا محمد حنیف یزدانی)