کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 215
پائی تھی کہ کسی نے آ کر شیخ صاحب کو ان کی نماز میں قاضی صاحب کے فوت ہو جانے کی اطلاع دی تو شیخ صاحب نے فوراً کپڑا اُتار پھینکا۔[1] دوسری دلیل: سینے پر ہاتھ باندھنے کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت ہلب طائی فرماتے ہیں: ((رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْصَرِفُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ وَرَاَیْتُہٗ۔۔۔یَضَعُ ہٰذِہٖ عَلٰی صَدْرِہٖ)) ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سے اور کبھی بائیں سے پیچھے کی جانب مڑتے تھے اور میں نے دیکھا کہ۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں(دونوں ہاتھوں کو)اپنے سینے پر رکھتے تھے۔‘‘ آگے ایک راویِ حدیث بیان کرتے ہیں: ((وَصَفَ یَحْیٰی(وَہُوَ ابْنُ سَعِیْدٍ)الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی فَوْقَ الْمِفْصَلِ))[2] ’’یحییٰ نے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے گٹے پر رکھا(پھر انھیں سینے پر باندھ لیا)۔‘‘ اس حدیث کی سند کے راوی ثقہ اور امام مسلم کی شرائط پر پورے اترنے والے ہیں،سوائے قبیصہ بن ہلب کے اور قبیصہ کو بھی ابنِ حبان اور عجلی نے ثقہ کہا ہے،لیکن ان سے سماک بن حرب کے سوا کسی نے کوئی روایت بیان نہیں کی اور ابن المدینی ونسائی نے اسے مجہول کہا ہے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ مقبول راوی ہے۔اس ساری وضاحت کے بعد اور امام ترمذی کی موافقت کرتے ہوئے دورِ حاضر کے بعض کبار محدثین کرام نے کہا ہے کہ ایسے راوی کی حدیث شواہد و مویدات کے ساتھ حسن درجے کی ہوتی ہے۔[3]
[1] حوالہ سابقہ(ص: 40 تا 42) [2] مسند أحمد(5/ 226)بحوالہ أحکام الجنائز(ص: 118)الفتح الرباني(3/ 172)نیل الأوطار(2/ 3/ 18)المرعاۃ(2/ 299،300) [3] أحکام الجنائز للألباني(ص: 118)التقریب لابن حجر(ص: 423)نیل الأوطار(2/ 3/ 18)آثار السنن للنیموي(ص: 67)