کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 179
سجود و جلسہ،تشہد و درود،دعا کرنے اور سلام پھیرنے کا الگ الگ مسنون طریقہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم،آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ائمہ مجتہدین اور فقہاء و محدثین کے اقوال کی روشنی میں معلوم کریں۔ تکبیر تحریمہ(اللّٰه اکبر): جب آپ کسی نماز کے لیے قبلہ رو کھڑے ہو جائیں تو رفع یدین کرتے ہوئے یعنی دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھاتے ہوئے تکبیرِ تحریمہ یعنی ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ‘‘ کہیں،کیونکہ نماز کے آغاز میں رفع یدین اور تکبیرِ تحریمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و فعلی احادیث سے ثابت ہے۔ تکبیرِ تحریمہ تو جمہور اہلِ علم کے نزدیک نماز کا رکن ہے اور احناف کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر یہ قبولیتِ نماز کی شرط ہے۔[1]شرط نہیں تو کم از اس کے رکن ہونے کا پتا متعدد احادیث سے چلتا ہے۔ 1۔ حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُوْرُ‘ وَتَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ،وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ))[2] ’’نماز کی چابی طہارت و وضوہے اور اس کا آغاز اللہ اکبر سے اور انتہا سلام پھیرنے سے ہے۔‘‘ 2۔ ایسے ہی اچھی طرح نماز نہ پڑھنے والے اعرابی والی معروف حدیث میں بھی یہ بات مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کا صحیح طریقہ بتلاتے ہوئے فرمایا تھا: ((اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلَاۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضْوْئَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ))[3] ’’جب تم نماز پڑھنے لگو تو خوب اچھی طرح طہارت و وضو کرو،پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو۔‘‘ 3۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے: ((کَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاۃِ کَبَّرَ))’’جب وہ نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے۔‘‘ راویِ حدیث نے اس میں رکوع سے قبل اور بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے رفع یدین کرنے کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے:
[1] فتح الباري(2/ 217) [2] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(556)صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(3)صحیح سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(222) [3] صحیح البخاري(6251)صحیح مسلم(2/ 4/ 107)صحیح سنن أبي داوٗد(762)صحیح سنن الترمذي(248)صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(851)صحیح سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(869)