کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 171
خشت اوّل چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج باثبوت: یہاں یہ بات آپ کو ذہن نشین کراتے جائیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے،بلکہ یہ کہہ کر سادہ دل لوگوں کو اس کا پابند بنا دیا جاتا ہے کہ دل کی نیت کے ساتھ زبان کا اقرار بھی ضروری ہے،یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں،بلکہ صحیح یہ ہے کہ جہاں جہاں دل کی نیت کے ساتھ ساتھ زبان کا اقرار وارد ہوا ہے،وہاں وہاں اقرار کیجیے،لیکن جہاں وارد نہیں ہوا،وہاں کے لیے کوئی اقرار خود ہی کیوں ایجاد کرتے ہیں؟مثلاً روزہ افطار کرنے کی دعا:’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ‘‘ وارد ہے اور ’’ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ‘‘ ثابت ہے۔لہٰذا اُس وقت یہ اقرار کیجیے،لیکن روزہ رکھنے اور سحری کھانے کے وقت ایسا کوئی اقرار وارد نہیں،لہٰذا ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘‘ جیسا اقرار ایجاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟[1] افطاری ہی کی طرح بعض دیگر احکام میں بھی زبان سے ایسے اقرار وارد ہوئے ہیں،وہاں جائز بھی ہیں۔مثلاً حجِ بدل کے لیے احرام باندھتے وقت ’’لَبَّیْکَ عَنْ فُلَانٍ‘‘ یعنی اس شخص کا نام لے سکتے ہیں،جس کی طرف سے حج کریں،کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ’’لَبَّیْکَ عَنْ شُبْرُمَہ‘‘ کہتے سنا تو اس سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس پر نکیر کی،بلکہ پوچھا کہ تم خود حج کر چکے ہو یا نہیں؟نفی میں جواب ملنے پر فرمایا:پہلے خود اپنی طرف سے حج کرو،پھر شبرمہ کی طرف سے حج کر لینا۔[2] یہی صورت صرف عمرہ کرنے والوں کے لیے احرام کے وقت ’’لَبَّیْکَ،اَللّٰہُمَّ بِالْعُمْرَۃِ‘‘
[1] اس کی تفصیل ہم ’’احکام و مسائلِ رمضان و روزہ‘‘ میں بیان کر چکے ہیں کہ روزہ رکھتے وقت صرف سحری کھا لینا ہی روزے کی نیت کے لیے کافی ہے،زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔’’نماز و روزہ کی نیت‘‘ کے نام سے یہ رسالہ مستقل کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔وﷲ الحمد۔ [2] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(1596)صحیح سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(2947)تلخیص الحبیر(1/ 2/ 223)موارد الظمآن،رقم الحدیث(962)صحیح ابن خزیمۃ(4/ 345)سوئے حرم از مولف(ص: 52)تخریج نمبر(33)