کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 167
دیتے ہیں کہ زبان سے نیت کی مہارنی یا گردان پڑھنے کا کوئی جواز نہیں۔ 1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی حدیث ’’المُسِیئُ صلَاتَہ‘‘(ٹھیک طرح نماز نہ پڑھنے والے صحابی کے واقعے پر مشتمل)حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلَاۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضُوْئَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ))[1] ’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونا چاہو تو اچھی طرح وضو کر لو اور پھر قبلہ رو ہو کر تکبیرِ تحریمہ کہو۔‘‘ اس حدیث شریف کے معنی و مفہوم پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو سب سے پہلے تکبیرِ تحریمہ ہی زبان سے نکالنی چاہیے اور دل کا فعل دل بجا لائے گا۔ 2۔ ایسے ہی ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیْرِ))[2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کا آغاز تکبیرِ تحریمہ سے کیا کرتے تھے۔‘‘ 3۔ ایک تیسری حدیث حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّہُوْرُ،وَتَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ،وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ))[3] ’’نماز کی چابی طہارت ہے اور تکبیر کہنے سے نماز کا آغاز اور سلام پھیرنے سے نماز کا اختتام ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ طہارت کے بعد نمازی کی نماز کا آغاز تکبیرِ تحریمہ ہے نہ کہ کوئی دوسرے الفاظ۔مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں اپنا ایک فتویٰ شائع کروایا تھا،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’عقلاً بھی یہ(زبان سے نیت کرنا)بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ذرا غور فرمائیے کہ
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث(6251)صحیح مسلم(2/ 4/ 107)صحیح سنن أبي داوٗد،رقم الحدیث(762)صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(248)صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(851)صحیح سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(869) [2] صحیح مسلم(2/ 4/ 213)صحیح سنن أبي داود(1/ 148) [3] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(55)صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(3)صحیح سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(222)