کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 162
رسالے ’’مفید الاحناف‘‘(ص:3)میں لکھا ہے: ’’قَالَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ لَمْ یَثْبُتْ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِطَرِیْقٍ صَحِیْحٍ وَلَا ضَعِیْفٍ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْاِفْتِتَاحِ:اُصَلِّیْ کَذَا،وَلَا عَنْ اَحَدٍ مِّنَ التَّابِعِیْنَ،بَلِ الْمَنْقُوْلُ اَنَّہٗ إِذَا قَامَ اِلَی الصَّلَاۃِ کَبَّرَ،وَہٰذِہٖ بِدْعَۃٌ ‘‘[1] ’’بعض حفاظِ حدیث نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح تو کیا،ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوں کہ میں فلاں نماز پڑھنے لگا ہوں،اور نہ یہ صحابہ و تابعین میں سے کسی سے ثابت ہے،بلکہ منقول یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے تھے۔لہٰذا یہ(زبان سے نیت کرنا)بدعت ہے۔‘‘ 11۔مجددِ الف ثانی: حضرت مجددِ الف ثانی نے ’’مکتوبات‘‘(مکتوب نمبر:186،طبع امرتسر)میں بعض علما کی طرف سے زبانی نیت کے استحسان کا تذکرہ کرنے کے بعد اس کا ردّ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’حالانکہ از آں سرورِ عالم علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام ثابت نہ شدہ،نہ بروایتِ صحیح نہ بروایتِ ضعیف و نہ از اصحابِ کرام و تابعینِ عظام کہ بزبان نیت کردہ باشند۔بلکہ چوں اقامت مے گفتند تکبیرِ تحریمہ می فرمودند۔پس نیت بزبان بدعت باشد۔‘‘[2] ’’حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ(زبان سے نیت کرنا)کسی صحیح یا ضعیف روایت میں ثابت نہیں ہے،ایسے ہی یہ بھی ثابت نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین عظام رحمہم اللہ زبان سے نیت کرتے ہوں،بلکہ جب وہ اقامت کہتے تو ساتھ ہی تکبیر تحریمہ کہہ دیتے تھے،لہٰذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔‘‘ 12۔علامہ فیروز آبادی: صاحب القاموس علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ نے بھی نیت کو دل کا فعل ہی قرار دیا ہے۔[3]
[1] مفید الاحناف از مولانا عبدالغفور رمضان پوری(ص: 3)بحوالہ سابقہ۔ [2] بحوالہ فتاویٰ علماے حدیث(3/ 86،87،89)ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ایضاً [3] سفر سعادت(ص: 23 ترجمہ اردو)