کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 160
انھوں نے مزید لکھا ہے: ’’باید دانست کہ نیت کارِ دل است بزبان گفتن حاجت نبود،و اگر زباں گوید و دل غافل باشد،اعتبار نہ دارد۔‘‘ ’’یاد رہے کہ نیت دل کا فعل ہے،جسے زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر زبان سے کہے،لیکن دل غافل ہو تو پھر زبان سے کہے ہوئے کا بھی کوئی اعتبار نہ ہوگا۔‘‘ اس سے آگے موصوف نے بھی صاحبِ ہدایہ کی طرح فقہا کی طرف سے وہی مشورہ دیا ہے جس کا خیر القرون سے کوئی ثبوت نہیں ملتا،جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں: ’’محدثاں گویند کہ درہیچ جا روایت از حضرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیامدہ کہ نیت بزبان گفتے۔‘‘[1] ’’محدثین کرام کا کہنا ہے کہ کسی کتاب میں زبان سے نیت کرنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت نہیں آیا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ سنت و اتباع(رسول صلی اللہ علیہ وسلم)یہی ہے کہ نیت صرف دل سے کریں۔جس طرح کسی کام کے کرنے میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے،ایسے ہی کسی کام کے ترک کرنے میں بھی اتباع واجب ہے۔جو شخص کسی ایسے کام پر مداومت و ہمیشگی کرتا ہے جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا،ایسا شخص محدثین کرام کے نزدیک بدعتی ہوتا ہے۔[2] 7۔مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ: ایسے ہی کبار علماء احناف میں سے مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح الوقایۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’اَلْاِکْتِفَائُ بِنِیَّۃِ الْقَلْبِ مُجْزِیٌٔ اِتِّفَاقًا،وَہُوَ الطَّرِیْقَۃُ الْمَشْرُوْعَۃُ الْمَاْثُوْرَۃُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَاَصْحَابِہٖ‘ لَمْ یُنْقَلْ عَنْ وَاحِدٍ مِّنْہُمُ التَّکَلُّمُ:نَوَیْتُ اَوْ اَنْوِیْ صَلَاۃَ کَذَا فِیْ وَقْتِ کَذَا‘‘[3]
[1] اللمعات(ص: 19)بحوالہ ’’راہِ سنت‘‘ ایضاً [2] بحوالہ ’’راہِ سنت‘‘ و ’’فتاویٰ علماے حدیث‘‘ [3] ’’عمدۃ الرعایۃ‘‘(ص: 129)بحوالہ فتاویٰ علماے حدیث(3/ 89)و بحوالہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ایضاً