کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 150
اشدّ ضرورت کے وقت: یہاں یہ بات بھی واضح کر دیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو بلاوجہ اور بلا ضرورت محض شیطان کے فریب میں آ کر ایسا کرتے ہیں،البتہ اگر کسی شخص کو کوئی سخت ضرورت آن پڑے اور مجبوری و لاچاری کے عالم میں اسے کسی طرف دیکھنا پڑ جائے تو اس کی نماز اور ثواب میں فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ وہ معذور و مجبور شمار ہوگا،جیسا کہ اس بات کا پتا بعض احادیث سے چلتا ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّیْ یَلْتَفِتُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا وَلَا یَلْوِیْ عُنُقَہٗ خَلْفَ ظَہْرِہٖ))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تو(وقتِ ضرورت)دائیں بائیں التفات فرما لیتے تھے،البتہ اپنی گردن کو اپنی پشت کی طرف نہیں موڑتے تھے۔‘‘ حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر پڑھنے لگے تو گھاٹی کی طرف بھی دیکھتے تھے۔امام ابو داود کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات ایک گھڑسوار کو نگرانی کے لیے گھاٹی کی طرف بھیج رکھا تھا۔[2] گویا یہ امن کی نہیں،بلکہ خوف کی حالت تھی۔ امام انس بن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ((رَاَیْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَسْتَشْرِفُ لِشَیْئٍ وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ یَنْظُرُ اِلَیْہِ))[3] ’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں کسی چیز کی طرف دیکھ رہے تھے۔‘‘ ان احادیث و آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی گنجایش صرف ضرورت کے وقت ہے،ورنہ نہیں اور وہ بھی صرف اس حد تک کہ نمازی کا جسم قبلہ رو ہی رہے۔اگر اس کا جسم بھی قبلہ سے پھر گیا تو بالاتفاق نماز ہی باطل ہو جائے گی،کیونکہ اس نے قبلہ رُو رہنے کے واجب کو ترک کیا ہے۔[4] آنکھیں بند یا کھلی رکھنا؟ نماز کے دوران میں آنکھوں کو کھلا رکھنا یا بند کرنا بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے۔امام احمد رحمہ اللہ
[1] صحیح سنن الترمذي(481)صحیح سنن النسائي(1146)موارد الظمآن‘،رقم الحدیث(531) [2] صحیح سنن أبي داوٗد،رقم الحدیث(183)صحیح ابن خزیمۃ(1/ 246) [3] مسند أحمد،رقم الحدیث(4072)صحیح البخاري و فتح الباري(2/ 335،336) [4] فقہ السنۃ سید سابق(1/ 261)