کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 137
2۔ دوسری حدیث حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ سے مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلّٰی بِہِمْ بِالْبَطْحَائِ،بَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ،اَلظُّہْرَ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ،تَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ الْمَرْأَۃُ وَالْحِمَارُ[وَالْکَلْبُ]))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحا میں ظہر و عصر کی دو دو رکعتیں(قصر)پڑھائیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی گاڑی ہوئی تھی اور کتے،گدھے اور عورتیں سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے۔‘‘ ان دونوں حدیثوں میں واضح طور پر مذکور ہے کہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سُترہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے لیے بھی وہی کافی تھا۔ 3۔ ایک تیسری حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((اَقْبَلْتُ رَاکِبًا عَلٰی حِمَارٍ اَتَانٍ وَاَنَا یَوْمَئِذٍ قَدْ نَاہَزْتُ الْاِحْتِلَامَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ بِمِنًی اِلٰی غَیْرِ جِدَارٍ‘ فَمَرَرْتُ بَیْنَ یَدَیْ بَعْضِ الصَّفِّ‘ فَنَزَلْتُ وَاَرْسَلْتُ الْاَتَانَ تَرْتَعُ وَدَخَلْتُ فِی الصَّفِّ‘ فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیَّ اَحَدٌ))[2] ’’میں گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو کسی دیوار کے بغیر ہی نماز پڑھا رہے تھے۔گدھی صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزری‘ پھر میں اس پر سے نیچے اتر گیا اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں داخل ہو گیا(اور نماز شروع کر دی)اور مجھ پر کسی نے نکیر نہیں کی۔‘‘ ان تمام احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام کا سُترہ مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے،جبکہ اس تیسری حدیث سے استدلال کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محلِ نظر قرار دیا
[1] صحیح البخاري(1/ 573)صحیح مسلم(2/ 4/ 220)صحیح سنن أبي داوٗد(639)صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(744) [2] صحیح البخاري(1/ 571)صحیح مسلم(2/ 3/ 221،222)صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث(659)صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث(277)صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث(726)سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث(947)