کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 135
کہ اس حدیث کو محدثین نے ضعیف و ناقابلِ استدلال کہا ہے۔[1] غرض یہ حدیث استناد ی حیثیت سے اس لائق نہیں کہ بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں وارد احادیث میں آنے والے امر کے صیغوں کو وجوب سے پھیر کر استحباب پرلے آئے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر اسے صحیح مان ہی لیا جائے تو علماء اصول کا طے شدہ قاعدہ سامنے آجاتا ہے کہ قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے لیے امر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک اس امر کا معارض نہیں ہو سکتا،جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکاہے۔ احادیث سُترہ میں پائے جانے والے امر کے صیغے کو وجوب سے استحباب کی طرف پھیرنے کا ایک قرینہ اس حدیث کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو مسند ابی یعلی میں مروی ہے،جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ((جِئْتُ اَنَا وَغُلَامٌ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ عَلٰی حِمَارٍ فَمَرَرْنَا بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَہُوَ یُصَلِّیْ فَنَزَلْنَا عَنْہُ وَتَرَکْنَا الْحِمَارَ یَاْکُلُ مِنْ بَقْلِ الْاَرْضِ[اَوْ قَالَ:نَبَاتِ الْاَرْضِ]فَدَخَلْنَا مَعَہٗ فِی الصَّلَاۃِ فَقَالَ رَجُلٌ:أَ کَانَ بَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ؟قَالَ:لَا))[2] ’’میں اور بنو ہاشم کا ایک لڑکا ایک گدھے پر سوار آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے،ہم اس سے اترے اور اُسے گھاس پھوس چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ایک آدمی نے کہا:کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا؟تو انھوں نے کہا:نہیں۔‘‘ لیکن اس حدیث کے آخری الفاظ جن میں سُترے کے لیے نیزے کے بارے میں سوال
[1] جس کا اندازہ اس سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف ابی داود(ص: 68)اور ضعیف سنن نسائی(ص: 24)میں نقل کیا ہے اور ضعیف نسائی میں اسے منکر قرار دیا ہے،جبکہ ’’تحقیق مشکاۃ المصابیح‘‘(1/ 244)میں بھی اسے ضعیف کہا ہے اور علامہ شعیب الارناؤوط نے بھی تحقیق شرح السنہ بغوی(2/ 461)میں اس کی سند کے ایک راوی ’’عباس بن عبیداللہ بن عباس‘‘ پر کلام نقل کیا ہے(کہ اگر کوئی دوسر ابھی اس کی متابعت کرے تو پھر یہ مقبول ہے)جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب التہذیب‘‘(ص: 254)میں کہا ہے،ورنہ اسے ’’لیّن الحدیث‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ [2] مجمع الزوائد(1/ 2/ 66)وقال : رجالہ رجال الصحیح۔