کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 134
سے حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ والی سابقہ حدیث کے علاوہ ایک حدیث سنن ابو داود و نسائی اور مسند احمد و ابی یعلی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلّٰی فِیْ فَضَائٍ لَیْسَ بَیْنَ یَدَیْہِ شَیْیٌٔ))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی فضا میں نماز پڑھی،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی سُترہ نہیں تھا۔‘‘ اس حدیث سے جو بات ثابت کی جاتی ہے وہ بہ قول امام شوکانی ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ ایک تو امام منذری نے کہا ہے کہ بعض محدثین نے اس کی سند پر کلام کیا ہے اور دوسرے یہ کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو کتبِ اصول میں یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد اُمت کے لیے ہو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک متعارض نہیں ہو سکتا۔احادیث میں امت کے لیے صیغۂ امر سے سُترے کا حکم ہے اور یہ عمل مبارک ہے،لہٰذا یہ قرینۂ صارفہ عن الوجوب نہیں ہو سکتا۔[2] یہی بات امام شوکانی نے حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ والی حدیث کے تحت بھی کہی ہے۔[3] فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((اَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَنَحْنُ فِیْ بَادِیَۃٍ لَنَا وَمَعَہٗ عَبَّاسٌ‘ فَصَلّٰی فِیْ صَحْرَائَ لَیْسَ بَیْنَ یَدَیْہِ سُتْرَۃٌ‘ وَحِمَارَۃٌ لَنَا وَکَلْبَۃٌ تَعْبَثَانِ بَیْنَ یَدَیْہِ فَمَا بَالٰی ذٰلِکَ))[4] ’’ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحرائی علاقے میں حضرت عباس رضی اللہ کے ساتھ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرا میں سُترے کے بغیر نماز پڑھی۔ہماری گدھی اور کتیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی کھیل کود کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔‘‘ اس حدیث سے بھی سُترے کے عدم وجوب پر استدلال کیا جاتا ہے،جبکہ پہلی بات تو یہ ہے
[1] الفتح الرباني(3/ 144،145)المنتقی(2/ 4/ 226) [2] نیل الأوطار(2/ 4/ 226) [3] مجمع الزوائد(1/ 2/ 66)حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو علامہ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں مسند احمد و ابی یعلی کی طرف منسوب کیا ہے اور علامہ مجد ابن تیمیہ نے ’’منتقی الأخبار‘‘ میں ابو داود اور مسند احمد کی طرف منسوب کیا ہے۔امام شوکانی نے ’’منتقی الأخبار‘‘ کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں ان دو پر نسائی شریف کا اضافہ بھی کیا ہے،جبکہ ابو داود و نسائی میں جو حدیث ہے وہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی قدرے مفصل ہے اور جب صرف ابن عباس کہا گیا ہو تو اس سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہوتے ہیں نہ کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما۔ [4] أبو داود مع العون(2/ 404،405)رقم الحدیث(718)الفتح الرباني(3/ 141)شرح السنۃ(2/ 461)