کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 122
نسبت نماز کے لیے سترہ رکھنے کی اہمیت زیادہ ہے۔لہٰذا اگر کبھی سُترے کے لیے دوسری کوئی چیز میسر نہ آئے تو حضرت شریک رحمہ اللہ والے اثر کی بنا پر ٹوپی کا سترہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ ٹوپی اگرچہ اونٹ کے کجاوے یا ایک ہاتھ یا دو تہائی ہاتھ کی مقدار سے چھوٹی رہ جاتی ہے،تاہم نہ ہونے سے بدرجہا بہتر ہے۔اس سے کم از کم نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو اتنا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نمازی نے خود اپنے سامنے رکھی ہوئی ہے اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ 7۔لکیر کھینچنا: ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ جب سُترے کے لیے عصا وغیرہ کوئی چیز بھی میسر نہ ہو تو نمازی اپنے سامنے کمان کی طرح لکیر کھینچ لے تو یہ اس کے لیے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مرفوعاً مروی ہے: ((إِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَجْعَلْ تِلْقَائَ وَجْہِہٖ شَیْئًا فَاِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیَنْصِبْ عَصًا،فَاِنْ لَمْ یَجِدْ عَصًا فَلْیَخُطَّ خَطًّا ثُمَّ لَا یَضُرُّہٗ مَا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ))[1] ’’تم میں سے جب کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے،کوئی چیز نہ ملے تو عصا گاڑ لے یا رکھ لے،اگر عصا بھی نہ ہو تو لکیر کھینچ لے،پھر اُسے آگے سے گزرنے والی کوئی چیز کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘ اس حدیث کی سند کو امام سفیان بن عیینہ،شافعی،بغوی،ابن الصلاح،ابن قدامہ،شیخ البانی اور شیخ شعیب الارناؤوط نے ضعیف قرار دیا ہے،جس کا سبب اضطراب اور دو راویوں کا مجہول ہونا ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ لکیر کھینچنے کا اس وقت تک کوئی معنی ہی نہیں جب تک حدیث صحیح ثابت نہ ہو۔[2] ایک دوسرے قول میں ان سے اس کے استحباب کا پتا چلتا ہے،جبکہ ان کے ہم مسلک فقہا کی اکثریت استحباب کی قائل ہے۔امام مالک اور اکثر فقہاے مالکیہ لکیر کھینچنے کو کوئی حیثیت نہیں دیتے،کیونکہ بقول قاضی عیاض ان کے نزدیک یہ حدیث ہی مضطرب اور ضعیف ہے۔پھر سُترے
[1] ضعیف سنن أبي داود(ص: 64)ضعیف ابن ماجہ(ص: 71)الفتح الرباني(3،128)شرح السنۃ(2/ 451)المنتقی(2/ 3/ 4)صحیح ابن خزیمۃ(2/ 13)تلخیص الحبیر(1/ 1/ 286) [2] التلخیص الحبیر(1/ 286)