کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد3) - صفحہ 121
تقریب التہذیب میں حافظ عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ولید لین الحدیث ہے۔[1] اس طرح اس حدیث کے ضعف کا پتا چلتا ہے۔یہی وجوہات ہیں کہ علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف ابو داود میں رکھا ہے۔[2] الغرض یہ ہے وہ حدیث اور اس کی استنادی حیثیت جس کی شرح میں امام شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں اور علامہ شمس الحق ڈیانوی نے ’’عون المعبود‘‘ میں لکھا ہے کہ سُترہ عین سامنے سے تھوڑا دائیں بائیں رکھنا مستحب ہے۔[3] معروف روپڑی خاندان کے سربرآوردہ بزرگ حضرت العلام حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے بھی اپنے اخبار ’’تنظیم اہلحدیث‘‘(جلد 18،شمارہ 4)میں لکھا تھا کہ سُترہ عین ناک کی سیدھ پر نہ ہو،بلکہ ذرا سا کنارے پر کسی آنکھ کی سیدھ پر ہونا چاہیے۔[4] 6۔ٹوپی: سُترے کے طور پر ٹوپی یا پگڑی رکھ لینا بھی صحیح ہے،کیونکہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا بیان ہے: ((رَاَیْتُ شَرِیْکًا صَلّٰی بِنَا فِیْ جَنَازَۃٍ اَلْعَصْرَ فَوَضَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ یَعْنِیْ فِیْ فَرِیْضَۃٍ حَضَرَتْ))[5] ’’میں نے شریک رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ایک جنازے کے موقع پر انھوں نے عصر کی نماز پڑھاتے وقت اپنے سامنے اپنی ٹوپی رکھ لی۔‘‘ اس اثر سے ٹوپی کا سُترہ بنانے کا پتا چلتا ہے،جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ فَجَعَلَہَا سُتْرَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ))[6] ’’کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ٹوپی مبارک سر سے اتار کر اس کا سُترہ بنا لیتے تھے۔‘‘ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔[7] البتہ یہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کی
[1] تقریب التہذیب(ص: 542) [2] ضعیف سنن أبي داود(ص: 65)تحقیق مشکاۃ المصابیح(1/ 243) [3] عون المعبود(2/ 387)نیل الأوطار(2/ 3/ 5) [4] بحوالہ فتاویٰ علماے حدیث از مولانا علی محمد سعیدی(3/ 74) [5] صحیح سنن أبي داود(1/ 134)شرح السنۃ(2/ 251) [6] المحلی(1/ 2/ 58)المغني(1/ 304،305)فقہ السنۃ(1/ 128) [7] تمام المنۃ للألباني(ص: 164)اس پر قدرے تفصیلی بحث ہم ’’ننگے سرنماز‘‘ کے دلائل کی استنادی حیثیت میں کر چکے ہیں،جو مستقل کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔وللہ الحمد۔