کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 94
بعض دیگر دلائل: تارکِ نماز کو فاسق قرار دینے والوں کے بعد دلائل کا جائزہ تو ہوگیا،جب کہ ان کے کچھ دلائل اور بھی ہیں،جن کی رو سے وہ کہتے ہیں کہ تارکِ نماز کافر نہیں بلکہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے۔ نویں حدیث: ان دلائل میں سے ایک تو وہ حدیث ہے جو سننِ اربعہ میں سے سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان و ابن سکن میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اﷲ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں،جس نے ان کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور انھیں ان کے اوقات(اولیٰ)میں ادا کیا،ان کے رکوع و سجود پوری طرح ادا کیے اور ان میں خشوع و خضوع کا اہتمام کیا،اس کے لیے اﷲ کا عہد ہے کہ وہ اُسے بخش دے گا،اور جس نے ایسا نہ کیا،اس کے لیے اﷲ کا کوئی عہد نہیں ہے: {إِنْ شَائَ غَفَرَلَہٗ وَإِنْ شَائَ عَذَّبَہٗ}[1] ’’اگر وہ چاہے گا تو اُسے بخش دے گا،اور اگر وہ چاہے گا تو اسے عذاب دے گا۔‘‘ حدیث شریف کے آخری الفاظ سے تارکِ نماز کے عدمِ کفر پر استدلال کیا جاتا ہے اور اس بات پر بھی کہ تارکِ نماز کے لیے دائمی جہنمی ہونا بھی ضروری نہیں،بلکہ اﷲ چاہے گا تو وہ اسے معاف کر دے گا اور چاہے گا تو عذاب دے کر چھوڑ دے گا۔ جائزہ: ’’المنتقیٰ‘‘ کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں اس حدیث کے تحت ایک گذشتہ بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وہاں ہم بیان کر چکے ہیں کہ کفر کی کئی قسمیں ہیں اور ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو مغفرت و بخشش کے منافی بھی نہیں،مثلاً اہلِ قبلہ مسلمانوں کو بعض گناہوں کے ارتکاب پر
[1] مسند أحمد (5/ 317) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (410) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث (447) سنن ابن ماجہ (1401) موارد الظمآن،رقم الحدیث (252)