کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 92
’’کلمہ گو کے جنت میں جانے سے مراد ایسا شخص ہے،جسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ شرمندہ اور تائب ہوجائے،اسی پر اس کو موت آجائے اور اسے عمل کرنے کا وقت ہی نہ ملے،تو ایسا آدمی محض کلمہ پڑھنے کے نتیجے ہی میں جنت چلا جائے گا۔‘‘ ان تاویلات و تشریحات کی ضرورت بھی صرف اس وقت پیش آتی ہے،جب ان احادیث کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے،لیکن اگر ان احادیث کو ان کے صحیح معنوں پر محمول کیا جائے تو پھر ان کی تاویل و تشریح کوئی مشکل نہیں رہ جاتی،جیسا کہ محقّقین نے بیان کیا ہے۔ تمام اہلِ سنت،جن میں سلف صالحین،اہلِ حدیث علما،فقہا اور اشعری متکلمین شامل ہیں،ان سب کا مذہب یہ ہے کہ گناہ گار لوگ اﷲ کی مشیت و مرضی کے تابع ہیں،جس شخص کی بھی موت ایمان کی حالت میں واقع ہوئی اور وہ اخلاصِ دل سے توحید و رسالت کی گواہی دیتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔اگر وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوگیا تھا یا گناہوں سے محفوظ تھا تو وہ رحمتِ الٰہی سے جنت میں چلا جائے گا اور وہ آگ پر بالجملہ حرام ہوگا۔اگر تو ان احادیث کو ایسے آدمی پر محمول کریں تو معاملہ بالکل واضح ہے اور حضرت حسن بصری و امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ تاویل کا یہی معنیٰ ہے۔ لیکن اگر وہ شخص نیکیوں اور برائیوں کے ملے جلے اعمال والا ہے کہ اس نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ بعض واجبات کو ترک کیا ہے یا پھر اﷲ کی طرف سے حرام کیے گئے بعض امور کا ارتکاب کیا ہے تو وہ مشیّتِ الٰہی یعنی اﷲ کی مرضی کے تابع ہے،اس کے بارے میں قطعیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیدھے جنت میں چلا جائے گا اور نہ یہ کہ وہ سیدھا جہنم میں داخل کر دیا جائے گا،بلکہ قطعیت اور یقین کے ساتھ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ صرف یہ کہ یہ شخص بالآخر کبھی نہ کبھی تو اس کلمے کی برکت سے جنت میں ضرور ہی جائے گا،لیکن اس سے پہلے اس کا معاملہ مشیّت و ارادۂ الٰہی کے تابع ہے۔اگر اﷲ نے چاہا تو وہ اسے اس کے گناہوں کی سزا دے دے گا(اور سزا بھگتنے کے بعد وہ جنت میں چلا جائے گا)اور اگر اﷲ چاہے گا تو وہ اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ اسے معاف کر دے گا(اور اسے جنت میں داخل کر دے گا،یہ اس کی مرضی ہے)۔ انھی تاویلات و تشریحات کے سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہنم کی آگ حرام ہونے اور جنت کا مستحق ہونے والی ہر دو طرح کی احادیث کو مستقل بالذّات مان لیا جائے تو یہ بھی ممکن ہے اور پھر ان