کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 90
ہے،لہٰذا تارکِ نماز کے لیے بھی رحمت کی اُمید جائے گی اور وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں: ’’کفر تو نام ہے توحید کے انکار کا،نیز رسالت اور روزِ قیامت کے انکار کا،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ برحق کے انکار کا،جبکہ تارکِ نماز اﷲ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اﷲ کا رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے اور اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قبروں والوں کو(حساب کے لیے)اُٹھائے گا،ایسے آدمی کے کفر کا فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ خصوصاً جبکہ ایمان تو تصدیق کا نام ہے،جس کی ضد یا عکس تکذیب ہے،یعنی ان امور کو جھٹلانا ہے،نہ کہ تصدیق کی ضد ترکِ عمل ہے،سو ایک تصدیق کرنے والے یعنی ماننے والے پر،تکذیب کرنے والے یعنی جھٹلانے یا انکار کرنے والے کا حکم کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے؟‘‘[1] سابقہ دلائل کا جائزہ: سابق میں ہم نے بے نماز کو کافر نہیں بلکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب اور فاسق قرار دینے والوں کے دلائل پر مبنی آٹھ احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے اقرارِ توحید و رسالت والے کلمے کی برکت سے لوگوں کو جہنم سے بالآخر نکالے جانے بلکہ جہنم پر حرام ہونے اور جنت میں داخل کیے جانے سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہ احادیث تو بلاشبہہ صحیح ہیں اور قابلِ استدلال بھی،البتہ اس مسئلے میں یہ صریح نہیں ہیں اور نہ وہ زیرِ بحث مسئلے میں واضح دلیل و حجت ہیں،کیونکہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے: ’’تمام سلف و خلف،ائمہ اسلام اور اشعریہ و معتزلہ تک کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ وہ احادیث جن میں ’’لا إلٰہ إلا اللّٰه ‘‘ کہنے سے جنت میں داخل ہوجانے کا ذکر ہے وہ اس بات یا شرط کے ساتھ مقیّد ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض و واجبات کو ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرتا ہو اور ایسے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو،جن سے توبہ نہ کی گئی ہو۔(یعنی اگر کوئی کبیرہ گناہ سرزد ہوا تو اس سے توبہ کی جا چکی ہو)اور اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ محض کلمۂ شہادت کہہ لینا دخولِ جنت کا موجب نہیں
[1] از افادات ابن القیم في الصلاۃ (ص: 36،37)