کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 81
’’جس نے کوئی فرض نماز جان بوجھ کر ترک کر دی تو اس سے اﷲ کا ذمہ بَری ہے۔‘‘ ’’مجمع الزوائد‘‘(1/295)میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے طبرانی کبیر کی طرف منسوب کیا اور کہا ہے کہ اس کی سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہے اور اس نے عنعنہ سے کام لیا ہے۔البتہ ’’مسند أحمد‘‘(6/421)میں مکحول کے طریق سے ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث مروی ہے،جس میں منقول ہے: {لَا تَتْرُکِي الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا،فَإِنَّہٗ مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ} یہ پہلی حدیث کی شاہد ہے،لیکن علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کے بقول اس کے راوی تو سب صحیح حدیث کے راوی ہیں،البتہ مکحول نے ام ایمن سے سنا نہیں۔یعنی اس کی سند میں یوں انقطاع پیدا ہوجاتا ہے۔امام منذری ’’الترغیب‘‘ میں کہتے ہیں کہ اسے طبرانی نے ’’معجم الأوسط‘‘ میں روایت کیا ہے اور متابعات کے لیے اس کی سند میں کوئی خاص قابل مواخذہ بات نہیں ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ایک روایت ہے جس میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی: {أَلَّا أَتْرُکَ الصَّلَاۃَ مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرَئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ}[1] ’’کہ میں جان بوجھ کر نماز ترک نہ کروں،کیوںکہ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کر دی تو اس سے اﷲ کا ذمہ بَری ہوگیا۔‘‘ اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہے،البتہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی حدیث اس کی شاہد ہے۔بہر حال ان دونوں اور ام ایمن رضی اللہ عنہا والی حدیث کے مجموعی مفاد سے معلوم ہوتا ہے کہ تارکِ نماز سے اﷲ کا ذمہ بری ہوجاتا ہے،جو اس کے ملت اسلامیہ سے خروج کی دلیل ہے،کیونکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے بہ قول اگر وہ اسلام پر ہی ہوتا تو پھر اسے اسلام کا ذمہ بھی حاصل ہوتا،جبکہ سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: {إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہِ الصَّلَاۃُ فَإِنْ صَلُحَتْ
[1] الصلاۃ أیضاً و صحیح الترغیب،رقم الحدیث (565) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (4034)