کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 74
بیان کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔[1] ایک اور حدیث میں بھی پابندیِ وقت کا ثواب اور بے پروائی و عدمِ پابندی کا عتاب وارد ہوا ہے،چنانچہ صحیح ابن حبان،سنن دارمی،مسندِ احمد،معجم طبرانی کبیر و اوسط اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر شروع کیا اور فرمایا: {مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہٗ نُوْراً وَّ بُرْھَاناً وَّنَجَاۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ،وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْھَا،لَمْ تَکُنْ لَّہٗ نُوْرٌ وَّلَا بُرْھَانٌ وََّلَا نَجَاۃٌ،وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَأُبَيِّ بْنِ خَلْفٍ}[2] ’’جس نے اس پر پابندی کی،اس کے لیے قیامت کے دن یہ نورِ برہان،دلیلِ خیر اور ذریعۂ نجات بن جائے گی،اور جس نے اس پر پابندی نہ کی تو اس کے لیے یہ نور ہوگی،نہ برہان اور نہ ذریعۂ نجات ہی اور قیامت کے دن اس کا حشر قارون،فرعون،ہامان اور ابیّ بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘ نماز کی پابندی نہ کرنے والے شخص کا حشر ان بدنامِ زمانہ لوگوں کے ساتھ کیوں ہوگا؟ اس کی یہ حکمت بھی بعض اہل علم نے بیان کی ہے،چنانچہ علامہ ہیتمی رحمہ اللہ نے ’’الزواجر‘‘(1/133)میں کسی کا نام لیے بغیر بعض علما کے حوالہ سے،اور دَور حاضر کے معروف عالمِ دین سید سابق نے ’’فقہ السنۃ‘‘(1/193)میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے وہ حکمت ذکر کی ہے کہ ان چار(بدنامِ زمانہ)اشخاص کے ناموں کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ چاروں کفار کے سردار ہیں اور ان کے ذکر کو مخصوص کرنے میں ایک بدیع نقطہ بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پر محافظت و پابندی نہ کرنے کا سبب یا تو کسی کا مال ہوسکتا ہے،یا پھر حکومت یا کسی کی کرسیٔ وزارت و ملازمت علیا یا پھر تجارت۔ اور اگر کسی کو اس کے مال کے غرور نے نماز پر پابندی سے روک لیا تو اس کا حشر و انجام(بڑے بڑے خزانوں کے مالک)قارون کے ساتھ ہوگا اور اگر کسی
[1] تحقیق الصلاۃ لابن القیم۔ [2] موارد الظمآن (254)