کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 70
1۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے: ’’یُؤَخِّرُوْنَھَا عَنْ وَقْتِھَا‘‘[1](وہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں) 2۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے نمازوں سے بے خبری برتنے والوں ساہون کو لاہون سے تعبیر کیا ہے۔[2] جو لوگ نماز سے کھیل تماشا کرتے ہیں۔بات یہ بھی پہلے والی ہی ہے کہ اپنی مرضی سے جب چاہے پڑھ لی،پابندیِ وقت کے بجائے نماز کو کھیل بنا لیا۔ 3۔ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس بے خبری سے مراد ترکِ نماز نہیں،بلکہ نماز کو ان کے اوقات سے بلا عذر مؤخر کر کے ادا کرنا ہے،کیونکہ اس بات کی تعیین تو خود حدیث میں بھی آئی ہے،جیسا کہ(مسند بزار میں)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’اپنی نمازوں سے ’’بے خبر‘‘ لوگوں سے کون مراد ہیں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {ھُمُ الَّذِیْنَ یُؤَخِّرُوْنَ الصَّلَاۃَ عَنْ وَقْتِھَا}[3] ’’ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنی نماز کو وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو مسند بزار کی طرف منسوب کرتے ہوئے علامہ ہیثمی نے اس کی سند کو ضعیف لکھا ہے۔[4] ایسے ہی ’’الترغیب و الترہیب‘‘ میں امام منذری نے اس حدیث کو ابراہیم کے بیٹے عکرمہ کی روایت سے مسند بزار کی طرف منسوب کیا اور لکھا ہے کہ حفاظِ حدیث نے اس کو موقوفاً ہی روایت کیا ہے۔امام بزار کے سوا اسے کسی نے بھی مرفوعاً روایت نہیں کیا اور عکرمہ ضعیف ہے۔ گویا یہ تفسیر مرفوعاً ثابت نہ ہوئی،البتہ ایک دوسری موقوف حدیث میں یہی مفہوم ہے،جس کی سند کو بھی علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ و منذری کی طرف سے حسن قرار دیا گیا ہے،وہ مسند ابی یعلیٰ اور درّ منثور سیوطی(6/400)کے مطابق تفسیر ابن جریر،ابن المنذر اور سنن بیہقی میں حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والدِ گرامی حضرت
[1] تفسیر الجلالین (ص: 823) [2] سنن الطبري (ص: 704) [3] مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (4/ 431) [4] الزواجر (1/ 133) مجمع الزوائد (7/ 143)