کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 400
{یَا أَبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟} ’’اے ابو عمیر! تمھاری سرخ چونچ والی چڑیا نے کیا کیا؟‘‘ آگے وہ فرماتے ہیں: ’’وَنُضِحَ بِسَاطٌ لَّنَا فَصَلّٰی عَلَیْہِ‘‘[1] ’’ہماری ایک چٹائی تھی،جسے نرم و صاف کیا گیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔‘‘ سنن ابوداود میں بھی یہ حدیث وارد ہوئی ہے،لیکن وہاں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر جانا مذکور ہے۔[2] اس حدیث میں چٹائی کے لیے حصیر کے بجائے بساط کا لفظ آیا ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں حافظ عراقی سے نقل کیا ہے کہ بساط کا لفظ بھی حصیر پر صادق آتا ہے اور یہ چٹائی جب بہت ہی چھوٹی سی ہو،جس پر صرف ہاتھ اور پیشانی رکھے جا سکتے ہوں،تاکہ گرم جگہ پر سجدہ کرنا ممکن ہو تو ایسے ٹکڑے کو ’’خُمرہ‘‘ کہا جاتا ہے جو کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی ہوتی ہے۔[3] یہ لفظ بھی احادیث میں وارد ہوا ہے،چنانچہ صحیحین اور سنن ترمذی کے سوا سنن اربعہ میں حضرت عبداﷲ بن شداد رضی اللہ عنہ اپنی خالہ میمونہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں،جس میں وہ فرماتی ہیں: ’’کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّيْ عَلَی الْخُمْرَۃِ‘‘[4] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘ سنن ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے،لیکن یہ وہاں ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[5]
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (6203) صحیح مسلم مع شرح النووي (7/ 14/ 128) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (4156) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث (274) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (3720) مسند أحمد (3/ 115،288) صحیح الجامع،رقم الحدیث (7830) نیل الأوطار (1/ 2/ 126) [2] صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (613) تحفۃ الأحوذي (2/ 297) [3] صحیح سنن الترمذي (1/ 105) فتح الباري (1/ 430) نیل الأوطار (1/ 2/ 126) [4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (381) صحیح مسلم مع شرح النووي (2/ 4/ 230) صحیح سنن أبي داود،رقم الحدیث (611) صحیح سنن النسائي،رقم الحدیث (712) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (1029) منتقی الأخبار (1/ 2/ 128) [5] صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث (272) موارد الظمآن،رقم الحدیث (354)