کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 197
مسلم شریف اور سنن بیہقی میں بھی موجود ہے۔[1] لیکن اس میں ’’حَسَرَ‘‘ کا لفظ نہیں،جو اس بات کی دلیل بنے کہ ران کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ننگا کیا تھا،بلکہ اس میں ہے کہ میرا گھٹنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک سے چھو رہا تھا: {وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم} ’’اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہبند کی چادر ہٹ گئی۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں انہی الفاظ کو بنیاد بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ران کے مقامِ ستر ہونے کی دلیل ہے،کیونکہ کپڑے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک سے ہٹ جانا سواری پر سوار ہونے اور بھیڑ ہونے کی وجہ سے تھا نہ کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کپڑا ہٹایا تھا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی نظر پڑ جانا بھی اچانک ہی تھا۔یہی معاملہ ان کے گھٹنے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھونے کا بھی تھا،کیونکہ انھوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔[2] جب کہ ران کو مقامِ ستر قرار نہ دینے والے اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ بخاری شریف اور مسند احمد میں لفظ ’’حَسَرَ‘‘ وارد ہوا ہے،جو اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ران سے کپڑا خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہٹایا تھا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھٹنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے بغیر کسی چیز کے حائل ہو کر چھونا اس کے مقامِ ستر نہ ہونے کی دلیل ہے،ورنہ مقامِ ستر کا بغیر کسی حائل کے دوسرے سے چھونا جائز نہیں ہے۔ مقامِ ستر نہ ماننے والے صحیح مسلم والی حدیث کے الفاظ: {وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم} ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک سے(کسی وجہ سے)کپڑا ہٹ گیا۔‘‘ کا یہ جواب دیتے ہیں کہ مان لیں کہ کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر نہیں ہٹایا تھا،بلکہ خود ہٹ گیا تھا تو اس کے باوجود یہ اس بات کی دلیل نہیں بنتی کہ ران مقامِ ستر ہے،کیونکہ اگر ران مقامِ ستر ہوتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ہی کپڑے سے ڈھانپ لیتے،حالانکہ صحیح مسلم و ابو عوانہ کا سیاق اور خصوصاً
[1] صحیح مسلم مع شرح النووي (5/ 9/ 218 وما بعد) إرواء الغلیل (1/ 301) [2] صحیح مسلم مع شرح النووي (5/ 9/ 219)