کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 192
’’ہر نماز کے وقت زینت اختیار کر لیا کرو۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ امام مجاہد،عطا،ابراہیم نخعی،سعید بن جبیر،قتادہ،سدی اور ضحاک نے بھی ایسے ہی کہا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ اور کتنے ہی دوسرے ائمہ سلف سے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جو ننگے ہو کر بیت اﷲ شریف کا طواف کیا کرتے تھے۔[1] علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے بقول اس آیت اور اس کے معنیٰ میں وارد شدہ احادیث کے پیشِ نظر ہر نماز خصوصاً جمعہ و عید کے لیے تجمل اور اختیارِ زینت مستحب ہے اور تجمّل و زینت سے مراد کوئی میک اپ کرنا نہیں،بلکہ امام ابن جریر طبری نے﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ﴾کا معنیٰ کیا ہے: ’’اِلْبَسُوْا الثِّیَابَ‘‘[2] ’’کپڑے پہنو۔‘‘ تفسیر جلالین میں لکھا ہے: ’’مَا یَسْتُرُ عَوْرَتَکُمْ‘‘[3] ’’جو تمھاری شرمگاہ کو ڈھانپ لے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’حجاب المرأۃ ولباسھا في الصلاۃ‘‘ میں جو پہلی فصل قائم کی ہے،وہ ہے: ’’فَصْلٌ فِي اللِّبَاسِ لِلصَّلَاۃِ‘‘ ’’نماز کے لیے لباس کا بیان۔‘‘ پھر لکھا ہے کہ یہی ہے ہر نماز و مسجد کے لیے زینت اختیار کرنا،جسے فقہا کہتے ہیں: ’’بَابُ سَتْرِ الْعَوْرَۃِ فِيْ الصَّلَاۃِ‘‘[4] ’’نماز میں سترِ عورۃ کا بیان۔‘‘ ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زینت اختیار کرنے سے اصل مراد نماز کے لیے ساتر لباس پہننا ہے۔یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ فقہا کی زبان میں جو سترِ عورہ کی اصطلاح معروف ہے،بہ ظاہر اس کا معنیٰ تو یہ ہے کہ نماز میں شرم گاہ کو ڈھانپا جائے،لیکن عورت یا شرم گاہ سے مراد محض
[1] تفسیر ابن کثیر (2/ 210) و تفسیر مجاہد از مولانا عبدالرحمن سواتی (ص: 235 طبع قطر) و فتح الباري (1/ 465) باب وجوب الصلاۃ في الثیاب،وقول اﷲ تعالیٰ: {خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} و مختصر تفسیر الطبري (ص: 168) [2] مختصر تفسیر الطبری حوالہ بالا۔ [3] تفسیر الجلالین (ص: 196) [4] حجاب المرأۃ (ص: 14)