کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 190
بہر حال اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مسلکِ تحریم کافی قوی ہے۔حتیٰ کہ ’’البحر‘‘ میں کہا گیا ہے کہ اگر ریشمی کپڑے کے سوا دوسرا کوئی کپڑا موجود ہی نہ ہو تو اس میں نماز صحیح ہے،تاکہ دونوں طرح کی احادیث میں موافقت ہوجائے اور اگر ریشم کا کپڑا ہوتے ہوئے کوئی شخص عریاں ہو کر نماز پڑھے گا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر صرف ریشم کا کپڑا ہی پاس ہو،دوسرا کوئی نہ ہو تو عریاں ہی نماز پڑھ لے،بالکل اسی طرح جیسے کسی کے پاس کپڑا تو ہو مگر وہ نجس و پلید ہو۔لیکن یہ تو تب ہے جب کپڑوں کی طہارت کو صحتِ نماز کے لیے شرط مانا جائے،جبکہ دلائلِ قویہ کی رُو سے امام شوکانی رحمہ اللہ نے طہارتِ لباس کو شرط نہیں بلکہ واجب قرار دیا ہے کہ ترکِ واجب کے گناہ کے ساتھ ساتھ نماز صحیح ہوگی۔[1] علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ’’الروضۃ الندیۃ شرح الدر البہیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جمہور اہلِ علم کا مذہب یہ ہے کہ نماز کے لیے بدن،کپڑوں اور جگہ کا پاک ہونا واجب ہے۔بعض نے شرط اور بعض نے سنت بھی کہا ہے۔لیکن حق یہ ہے کہ یہ واجب ہے،لہٰذا جس نے جان بوجھ کر نجاست والے پلید کپڑوں سے نماز پڑھ لی،اس نے ایک واجب فعل کو ترک کیا،لیکن اس کی نماز صحیح ہوگی۔[2] اس سے ریشم کے کپڑے میں پڑھی گئی نماز کا حکم بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نماز تو ہوجائے گی،البتہ حرمتِ ریشم اور ترکِ واجب کا ارتکاب شمار ہوگا،یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جمہور کے مذہب کے طور پر بیان فرمائی ہے۔امام مالک رحمہ اللہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر ریشم کے کپڑے میں کوئی نماز مجبوراً پڑھی گئی اور اس نماز کا وقت ہوتے ہوئے ہی دوسرا کپڑا مل گیا تو اس نماز کو دُہرانا چاہیے۔[3] لیکن اس سلسلے میں جمہور کا مسلک ہی اقرب و اعدل ہے۔ نماز میں سترِ عورہ: تیسری بات جو نماز کے لائق لباس کے لیے ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ مردو و زن ہر دو کا لباس ساتِر ہونا چاہیے کہ وہ اعضا جن کا نماز میں ڈھانپنا ضروری ہے،وہ اس لباس میں ڈھانپے گئے ہوں،کیونکہ سورت اعراف آیت میں ارشادِ الٰہی ہے:
[1] نیل الأوطار (1/ 2/ 119۔122) بحوالہ فقہ السنۃ (1/ 124) [2] الروضۃ الندیۃ (1/ 80) [3] نیل الأوطار (1/ 2/ 81)