کتاب: فقہ الصلاۃ (نماز نبوی مدلل)(جلد2) - صفحہ 188
اور ’’منتقی الأخبار‘‘ میں علامہ مجد الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر محمول کی جائے گی کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ریشمی قبا کو اس کے حرام ہونے کا حکم نازل ہونے سے پہلے پہنا تھا،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تو گمان کرنا بھی روا نہیں کہ حرمت کا حکم نازل ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قبا پہنی ہو اور اس میں نماز بھی پڑھی ہو۔[1] اکثر فقہا حرمت کے بجائے اس کی کراہت کے قائل ہیں،یعنی ریشمی کپڑے میں نماز پڑھنا حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے اور ان کا استدلال اس سے ہے کہ حرمت کی علّت تو غرور و تکبر ہے،جبکہ نماز میں غرور و نخوت نہیں ہوتی۔لیکن صاحبِ نیل الاوطار کہتے ہیں کہ ان کا غرور کو علت بنا کر حرمت کی نص کو غیرِ نماز کے لیے مخصوص کرنا ایک ایسا فعل ہے جو قابل التفات ہی نہیں ہے۔ بعض لوگ ریشم کے کپڑے میں نماز کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہ اُسی حدیثِ عقبہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کرتے ہیں،جس میں ریشمی قبا میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنا مذکور ہے،اس حدیث سے وہ یوں دلیل لیتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریشمی قبا میں نماز ادا فرمائی تو یہ جواز کی دلیل ہے۔ہاں اگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو قبا اتارنے کے بعد دہراتے،تو پھر ریشمی کپڑے میں نماز پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی تھی،جب کہ ان کا یہ استدلال بھی قابل قبول نہیں،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اس لیے نہیں دُہرایا تھا،کیوںکہ وہ نماز اس کی حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس قبا میں پڑھی گئی تھی۔ حرمت کا حکم نازل ہوجانے کے بعد بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ریشمی کپڑے کو پہننا اور نماز بھی اس میں پڑھنا،اس بات کا تو وہم و گمان بھی روا نہیں،بلکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسی بدگمانی کسی گستاخی سے کم ہرگز نہیں ہوگی اور پھر اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ وہ نماز ریشم کی حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے ریشمی قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی،کیونکہ صحیح مسلم،مسند احمد اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ملتے جلتے الفاظ سے مروی ہے: {صَلَّی فِيْ قُبَا دِیْبَاجٍ ثُمَّ نَزَعَہٗ،وَقَالَ:نَھَانِيْ جِبْرِیْلُ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی قبا میں نماز پڑھی،پھر اُسے اتار دیا اور فرمایا کہ مجھے جبرائیل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا ہے۔‘‘
[1] المنتقیٰ (1/ 2/ 80) [2] نیل الأوطار (1/ 2/ 80)